Muqami o Aalmi Siasat Ka Chana Chor Garam
مقامی و عالمی سیاست کا چنا چور گرم
جاڑے میں ابھی کمی نہیں ہوئی دھند بھی "تھوڑا تھوڑا" رنگ دیکھاتی رہتی ہے البتہ سیاست کے میدان میں " رجویں " گرما گرمی ہے۔ سندھ میں تحریک انصاف پیپلزپارٹی کے خلاف "طبل جنگ" بجاکر ہلکی پھلکی "ٹھوں ٹھاں " میں مصروف ہے۔ اسد عمر اور علی زیدی دعویٰ کررہے ہیں کہ سندھ سے اگلی بار پیپلزپارٹی کا صفایا کردیں گے اور حکومت پی ٹی آئی کی بنے گی۔
بن سکتی ہے کیونکہ اگر کونسلر نہ بن سکنے والا بندوبستی طریقے سے ایم این اے بن سکتا ہے تو سب کچھ ممکن ہے۔"سب کچھ"سیاست کے میدان میں دوسرا موضوع وہی اسٹیٹ بینک والا بل ہے۔"انجمن ناموس ابو مریم جاتی امراء شریف" کے پیروکاران لاٹھیاں بھالے لئے یوسف رضا گیلانی پر چڑھ دوڑے ہیں بہت دنوں بعد تحریک انصاف اور لیگی پیارے یوسف رضا گیلانی کے معاملہ میں ایک پیج پر ہیں۔ ایک پیج کی اس ملک کی سیاست و ریاست میں بڑی اہمیت ہے۔ سارے کاروبار اسی سے چلتے ہیں۔
چند گھنٹے قبل "انجمن ناموس ابو مریم جاتی امراء شریف" کے ناظم اعلیٰ نے انکشاف کیا کہ "یوسف رضا گیلانی کے حامی کون کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بوٹ چاٹ ہیں اور جمہوریت کی آڑ میں فسطائیت کی ترویج کراتے ہیں "۔
فقیر راحموں کا خیال ہے کہ "کچھ لوگ دور اندر تک مقامیت سے نفرت پالے ہوئے ہیں لیکن ظاہری رکھ رکھائو کے کھوکھلے پن کے تحفظ کے لئے اپنی نفرت سیاسی جھوٹ بول کر نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے"۔ ہمارے اور آپ کے لئے فقیر راحموں کی بات سے متفق ہونا ضروری نہیں نہ ہی اس بات سے اتفاق ضروری ہے کہ پتلی گلی سے بھاگ لینے کو مزاحمت کا حصہ بناکر لوگ شرمندہ کیوں نہیں ہوتے۔
اس ملک میں سیاست نظریاتی سے زیادہ شخصی پسندوناپسند سے عبارت رہی، " انجمن تحفظ ناموس ابو مریم جاتی امرا شریف" کے بانی ناظم اعلیٰ کا خیال ہے کہ اس ملک میں اب ووٹ محبان ابو مریم کا ہوگا یا مخالفان ابو مریم کا، تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کی زندہ نشانی ابو مریم میاں جی ہی ہیں۔ تاریخ بڑی بے رحم ہے۔ کھوج کے کھوج کے سودے بازار میں لے آتی ہے۔
بازار میں تو ہر چیز ملتی ہے۔ پھولوں کے ہار بھی۔ پھولوں کےہار ان کی قسمت بھی عجیب ہے زندہ لوگوں کے گلوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ مرحومین کی قبروں پر اور کبھی جب "وہ" بازار آباد ہوتے تھے تو ہار تماش بینوں کی کلائیوں پر چڑھتے تھے۔ تماش بینوں کی کلائیوں پر چڑھتے ہاروں والی بات سے ایک رنگین داستان نے دستک دی لیکن یہ پھر سہی، فی الوقت ہم آج کے موضوع کو ہی آگے بڑھاتے ہیں۔ اللہ کی شان یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر جن کے گھروں میں تین تین دن شکرانے کے لنگر تقسیم ہوئے اب ان کے متوالے سمجھاتے ہیں کہ سماجی اخلاقیات و اقدار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
اس سماجی اخلاقیات اور اقدار نے اس دانشور کی یاد دلادی جس کا خیال تھا کہ اس کا فرمایا دھرتی پر مستند ہوگا یہ اور بات کہ فرمائے پر کسی نے کان دھرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ خیر چھوڑیں یہ ہم کس قصے میں الجھنے لگے ہیں۔ جس معاشرے میں مفاہمت اور سودے بازی سے رعایت حاصل کرنا "فن" کہلاتا ہو وہاں آپ کسی سے شکوہ کریں تو کیوں کریں۔
گرما گرم سیاسی میدان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ وفاقی وزراء سندھ سے ڈاکو راج ختم کرانے کے دعوے کررہے ہیں۔ ڈاکو کون ہے وضاحت کے ساتھ عرض کرنے سے امر مانع ہے۔ بس ہم اپنے سیاسی (ہم سے مراد سیاستدان اور ان کے پیارے ہیں) مخالف کو منہ بھر کے گالی دینے کو سیاست کی معراج سمجھتے ہیں۔
کامریڈ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ لانگ مارچ سے حکومت کو فارغ کردیں گے 23مارچ صرف پریڈ کا نہیں "مارچ" کا دن بھی ہے۔ نوازشریف کو باہر بھیجا نہ لائوں گا۔ ان کے بقول صدارتی نظام کی باتیں کرنے والے ملک کی سالمیت سے کھیل رہے ہیں۔ صدارتی نظام پر یاد آیا کہ خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان نے فرمایا ہے کہ ملک میں بار بار مارشل لائوں کے نفاذ کی وجہ پارلیمانی نظام ہے۔ ان کے بقول صدارتی نظام ہی سب سے بہتر ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر سیاسی قیادت محب وطن ہو تو اسٹیبلشمنٹ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
سادہ ترجمہ یہ ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے آج تک جو کچھ کیا اس لئے کیا کہ قیادت محب وطن نہیں تھی۔ یہ حب الوطنی کا معیار کیا ہے آخر؟ اس ملک میں جس کا جی چاہتا ہے حب الوطنی کی اسناد اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے لگتا ہے۔ دستور شکنی کیسے حب الوطنی قرارپائے گی۔ اصل سوال تو یہی ہے کہ جو لوگ دستور کو کاغذوں کے پلندے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور حاکمیت اعلیٰ پر حق فائق سمجھتے ہیں انکے ہوتے ہوئے کسی غدار کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
یہ جو بھانت بھانت کے لوگ پچھلے مہینے ڈیڑھ مہینے سے صدارتی نظام کے فضائل بیان کررہے ہیں ان کے خیال میں پارلیمانی نظام ہمارے مزاج، روایات اور بہت ساری دوسری چیزوں سے لگا نہیں کھاتا۔ لازم ہے کہ صدارتی نظام لایا جائے۔ صدر براہ راست منتخب ہو۔
ارے بھائیو تین بار صدر براہ راست منتخب کیا تو تھا ان تین صدور کے ا دوار میں جو اس ملک کے ساتھ ہوا وہ بھول گئے کیا؟ کچھ دیر کے لئے ملکی حدود سے باہر چلتے ہیں۔ اسرائیلی صدر نے اپنے پہلے دورہ متحدہ عرب امارات کے موقع پر یو اے ای کی سکیورٹی کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ہمارے کچھ دوست اسرائیلی صدر کے دورہ یو اے ای پر چیں بچیں ہیں انہیں سمجھناچاہیے کہ ممالک کے درمیان تعلقات مذاہب و عقیدوں پر نہیں مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ ویسے یہ مذاہب و عقیدوں کی آنکھ سے ممالک کے تعلقات کو دیکھنے کی بیماری برصغیر (تقسیم شدہ برصغیر) کے ممالک میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ باقی کی دنیا اس سے قدرے محفوظ ہے۔ اس دنیا میں لوگ انسانی بنیادوں کے ساتھ معاشی ضرورتوں اور سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔
ہمارے معاشی حلوے مانڈے چونکہ صدقہ خیرات زکوٰۃ اور خمس پر قائم ہیں اس لئے اس سے آگے دیکھنے سوچنے کو کفران نعمت قرار دیا جاتا ہے۔ یو اے ای یا کوئی دوسرا ملک اسرائیل سے سفارت تعلقات رکھے تو بھلے رکھے دولے شاہی چوہوں کا رونا دھونا فضول ہے۔ کیا ہمارے (جنہیں ہم کہتے ہیں) برادر اسلامی ممالک نے گزشتہ دو سالوں کے دوران بھارت سے ساڑھے تین سو ارب ڈالر کے معاہدے نہیں کئے؟
ان برادر اسلامی ممالک نے تو ایک لمحے کے لئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار اور بھارتی مظالم کو سامنے رکھنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ جو سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے جگر کی اصل خرابی کی وجہ یہی ہے۔
اب چلتے چلتے یہ جان لیجئے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی سکیورٹی پر مامور افراد سے مزید احتیاط کرنے اور سکیورٹی کو سخت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوامی ہجوم میں بلاول کے گاڑی سے باہر نکلنے سے گریز کے ساتھ کوشش کی جائے کہ سیاسی سرگرمیوں کے لئے سفر گاڑی کے ذریعے کم سے کم کیا جائے۔
حرف آخر یہ ہے کہ اتوار کے روز پشاور میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مسیحی برادری کے ایک مذہبی رہنما جاں بحق اور دوسرے شدید زخمی ہوگئے۔ ابھی ابتدائی تفتیشی نتائج سامنے نہیں آئے لیکن مسیحی برادری کے بعض ذمہ داران دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے رہنمائوں کو پچھلے کچھ عرصہ سہ مذہبی عبادات روکنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ تحقیقات کرنے والے اداروں کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔