Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Mazrat Ke Baghair Talkh Nawai

Mazrat Ke Baghair Talkh Nawai

معذرت کے بغیر تلخ نوائی

ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر انصافی لشکر کے ڈھیر سارے سورمائوں نے جو "ات" مچائی اس پر رونے منہ بسورنے اور مذمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ زبان دانی، ہر شخص کے لئے گالی ہر بات میں سازش تلاش کرنے کے اسباق پڑھائے کس نے تھے بھلا؟

انہوں نے جنہوں نے 2011ء سے 2018ء کے درمیان باقاعدہ تربیت دی، پگڑیاں اچھالنے، آنچل نوچنے اور گالی دینے کی، وہ کون ہیں؟ ان میں ایک تو وہی ہیں جنہوں نے 2018ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد ایک ٹیوٹ کی تھی "اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت سے دوچار کرتا ہے"۔ تبھی ہم نے عرض کیا تھا آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے میں باری تعالیٰ (اللہ رب العزت)کا کوئی ہاتھ نہیں سسٹم بیٹھانے والوں نے منصوبہ بندی کے تحت نتائج تبدیل کئے۔

نتائج کی یہ تبدیلی ملکی تاریخ کے بدترین جھرلو کے مصداق تھی۔ نتائج کی تبدیلی کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ نصف صدی کا تجربہ تھا نتائج بدلنے اور گھٹالوں کا۔ "انہیں" ہمیشہ یہ زعم رہا کہ ان سے زیادہ محب وطن، معاملہ فہم اور دانش مند اور کوئی نہیں ملک میں"ان" کے علاوہ سب چھان بورا ہے۔

مثال کے طور پر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تشریف لانے والے الیکٹرانک میڈیا پر ایک نگاہ ڈال لیجئے۔ اس تحریر نویس نے 2006ء میں عرض کیا تھا کہ ایک سرکاری محکمہ کے ذیلی شعبہ کے لوگ کچھ منتخب نوجوانوں کی تربیت کررہے ہیں اور کچھ پرانے مخبروں کو نئی ذمہ داریوں پر لانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے جو مالکان الیکٹرانک میڈیا کی طرف بڑھ رہے ہیں ان سے درون خانہ معاملات طے کئے جارہے ہیں۔ نجی چینل شروع ہوں گے تو ان کے تربیت یافتہ لشکر کو کھپایا جائے گا"۔

2007ء میں جب نجی چینلز کا سیلاب آیا تو کیا ہوا۔ آپ نجی چینلز کی تجزیہ کاری کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھیں۔ پہلا حصہ 2007ء سے اکتوبر 2011ء تک ہے اور دوسرا 2011ء سے 2018ء تک۔ وہ جماندروں سینئر تجزیہ کار جو ٹی وی سکرینوں پر لا بٹھائے گئے ان کے تجزیے یاد کیجئے۔

ایک ریاستی محکمے کے لئے ساڑھے سات ہزار روپے ماہوار پر مخبری کرنے والے تحقیقاتی صحافی کی "عجب کرپشن کی غضب کہانی" والی سیریز یاد کیجئے۔ کیسے کیسے دانے بینے ان برسوں میں پھٹے توڑ تجزیوں کے ذریعے بتاتے سمجھاتے رہے کہ سیاسی جماعتیں چوروں کے لشکر ہیں۔ ملک فوج کے محفوظ ہاتھوں میں نہ ہوتا تو انہوں (سیاستدانوں) نے بیچ کھانا تھا۔

پھر اس لشکر نے منصوبے کے تحت عمران خان کو نجات دہندہ بناکر پیش کیا۔ ان سطور میں گاہے گاہے عرض گزار ہوا، اپنے سوا سب کو چور غدار اور فلاں فلاں کہلوانے والے ایک دن سر پکڑ کر روئیں گے۔

یہ بھی عرض کیا تھا، وحشی جٹ، مولا جٹ، گجر دا کھڑاک جیسی فلمیں اس معاشرے میں کامیاب فلمیں ثابت ہوئیں بھیڑ چال میں لگ بھگ تین ساڑھے تین سو فارمولا فلمیں بنیں لیکن پھر ہوا کیا، دیکھ لیجئے۔ اس جٹ و گجر فارمولہ فلموں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کا بولو رام کردیا۔

تجربوں کے شوقین ریاستی محکموں نے منظم منصوبے کے تحت سماجی اخلاقیات، سیاسی رواداری وغیرہ کا انتم سنسکار کروایا۔ اب "تیار شدہ" لاڈلے یوں کہہ لیجئے "تخلیق" خالقوں کے گریبانوں سے الجھنے لگی ہے تو ایک سیاپا جاری ہے۔

صبر کیجئے حضور ابھی تو کچھ نہیں ہوا۔ آپ نے بہت محنت کی میڈیا مینجمنٹ کروائی، جلسے کامیاب کروانے کے لئے حکمت عملی اپنائی۔

اکتوبر 2011ء کا مینار پاکستان والا "تاریخ ساز" جلسہ کیسے کامیاب ہوا۔ کس کس محکمے کی گاڑیاں ریلوے سٹیشن سے بادامی باغ تک پارک کی گئیں اور خواتین و بچوں کے لئے اگلے مرحلہ میں ویگنیں تھیں، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔

اس سیاہ تاریخ کا جس منہ پر سیاہی اصل میں آپ کے کرتوتوں کی ہے مگر کمال مہارت سے آپ نے دوسروں کے کھاتے میں ڈال دی۔ سیاسی جماعتیں توڑ کر جماعتیں بنوانے کے پرانے تجربے کو پھر آزمایا گیا۔ خیر یہ سب کچھ سب کے سامنے ہوا اور یہ بھی کہ آپ کے سارے جرائم کی پردہ پوشی ہوگئی۔

اب یہ جو نیا لشکر آپ نے ترتیب دیا دلوایا، یہ آپ کے گلے پڑگیا ہے۔ کیسی شاندار حکمت عملی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ ظواہری والے معاملے میں ریاست پاکستان کی وضاحت اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی خبروں کے برعکس موقف ہے۔ یہاں تک سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد چودھری تک کہہ رہا ہے کہ وضاحت ناکافی ہے۔ پورا لشکر اس پر ایمان رکھتا ہے کہ ڈرون حملے میں پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی یا فضائی حدود، بلوچستان میں ہیلی کاپٹر حادثے پر جو کچھ کہا گیا وہ بھی ریکارڈ پر ہے۔

اب صفائیوں، وضاحتی بیانات، اعترافی ویڈیوز یہ سب کسی کام کی نہیں تیر کمان سے نکل چکا۔ یہ تاثر عام ہے کہ ریاست کے کسی محکمے میں یکسوئی نہیں ہے۔ پہلے سابقین کے ساتھ حاضرین کی فیملیوں کو انتظامات کے ساتھ آپ بھجواتے تھے اب وہ خود جاتے ہیں۔ یہی ہونا تھا جو ہورہا ہے۔

کیوں قبول نہیں سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ؟ اس لئے کہ اب اس کی زد میں آپ ہیں۔ لیکن اس "رسم" کے بانی بھی آپ ہی ہیں لایئے اپنے اس افسر کو احتساب کے کٹہرے میں جس نے نقیب اللہ محسود کے قتل کےبعد ایک سٹوری لکھی اور آپ نے اپنے لے پالکوں کے ذریعے اس قتل میں محترمہ بینظیر بھٹو کی صاحبزادی کے کردار کو مسخ کرکے پیش کیا۔ تب کیوں نہ یاد آیا کہ بہو بیٹیاں آپ کے گھروں میں بھی ہیں۔

ہے ہمت کسی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے بنوانے کی جو 2009ءسے شروع ہوئی میڈیا وار کے آغاز مقصد، فنڈنگ اور دیگر معاملات کی تحقیقات کرے اوربتائے کہ کتنی رقم اس "جنگ" کا رزق ہوئی۔

بندہ پرور آپ نے ابھی منہ بسور لیا صبر کیجئے ابھی کھیل شروع ہوا ہے۔ یہ انجام تک جائے گا اس کھیل کے مقامی اور بیرونی کردار سب بے نقاب ہوں گے۔ دیوار پر لکھی حقیقت یہی ہے کہ اس ریاست کا پیسہ ریاست کے خلاف استعمال ہوا۔

کاش آپ کو یہ بات سمجھ میں آسکتی کہ ریاستیں جمہوریت، انصاف، مساوات پر قائم رہتی ہیں۔ بڑے لشکر اور اسلحہ کے ذخائر ریاستوں کے وجود کی ضمانت ہوتے تو سوویت یونین تنکوں کی طرح نہ بکھرتا۔

اب بچوں جیسی کہانی سنانے نہ لگ جایئے گا کہ سوویت یونین جہاد افغانستان سے ٹوٹا۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد معرض وجود میں آنے والی مملکتیں آج کس حال میں ہیں اور افغانستان کس حال میں ہے۔ اب بھی 60لاکھ افغان مہاجرین دو پڑوسی ملکوں کے گلوں کا طوق بنے ہوئے ہیں۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلسل جھوٹ تھا آپ کی عظمت و دانائی اور سیاستدانوں کا چور ہونا۔ اس میں سچ اتنا ہی ہے جتنی آپ کی دانائی۔ کسی دن ٹھنڈے ٹھار دفتر سے نکلیں، کافی پئیں، کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر سوچیں، چار بار مارشل لاء (تین باضابطہ اور ایک بے ضابطہ) لگانے سے کیا ملا۔ جرنیلی جمہوریت کے شوق پورے کئے، پارٹیاں توڑیں بنوائیں، لشکر بنوائے ان سارے تجربوں کا حاصل وصول کیا ہے۔

میں جنگوں کی بات نہیں کررہا اس بارے تاریخ فیصلہ کرے گی۔ فقط یہ عرض کررہا ہوں کہ اب بھی وقت ہے دانشوری کی آتش بازی کے شوق سے نجات حاصل کرلیجئے۔

آخری بات یہ ہے کہ ہم ایسے زمین زادوں کی حسرت نما خواہش یہ ہے کہ کسی دن ایک ایسا قومی کمیشن ضرور بنے جو ملک کو لوٹنے والوں کے بارے میں تحقیقات کرے اور عوام کے سامنے پورا سچ لائے کہ اس ملک کو اصل میں لوٹا اور برباد کس نے کیا۔

Check Also

Madam Commissioner

By Rauf Klasra