Malik Manzoor Hussain Mahe Marhoom
ملک منظور حسین مہے مرحوم
بزرگ کہتے تھے اولاد اپنے والدین کا چہرہ ہوتی ہے۔ گھر کی دہلیز کے باہر چار اور پھیلے سماج میں لوگوں سے ملنا جلنا، برتائو، انداز تکلم، نشست و برخاست، غرض یہ کہ ایک ایک چیز اس تربیت کا پتہ دیتی ہے جو گھر کی چاردیواری میں ہوئی ہوتی ہے۔
تربیت ہی اصل وصف ہے یہی تعارف بھی۔ یہ سب یوں یاد آرہا ہے کہ ہمارے دوست اور چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ملک محمود مہے کے والدِ بزرگوار ملک منظور حسین مہے چند دن اُدھر سفر حیات مکمل کرکے خالق حقیقی اور محبوب دوعالم آقائے صادق محمد مصطفیٰ کریمؐ سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگئے۔
ان کے سانحہ ارتحال کے بعد ایک دوبار کوشش کرکے محمود کا نمبر ملایا مگر بات نہیں ہوسکی۔ دکھ کی سانجھ ہی اصل میں رشتوں کا احساس ہے۔ رشتے رشتے ہوتے ہیں، احساس سلامت ہو تو یہ بہت قیمتی ہیں۔
21 رمضان المبارک کی صبح جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو مطالعہ کی دستک نے یاد دلایا کہ آج کے دن جس صاحب علم و کمال اور کلِ ایمان سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت ہوئی تھی انہوں نے اپنی زندگی میں کوفہ کی جامعہ مسجد کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا "کوئی بچہ خود کو یتیم و لاوارث نہ سمجھے میں (علیؑ) ہر یتیم کا باپ اور لاوارث کا وارث ہوں "۔
آج سے 8یا 9دن بعد (بروز عید الفطر) میرے والد گرامی کی برسی ہے۔ مجھے اپنے اولد گرامی جب یاد آتے ہیں میں امام علیؑ کے اس ارشاد سے تقویت حاصل کرتا ہوں۔
ان کے ارشادات کا مطالعہ کرکے حصول علم کی پیاس بجھاتا ہوں۔ مرشد کریم سید بلھے شاہؒ نے کہا تھا"طالب و مطلوب کا ایک ہی ذات میں جلوہ دیکھائی دیتا ہے"۔ عزیزم محمود مہے اب یتیموں کی فہرست میں شامل ہوئے۔ یہ یتیمی بھی ایک روگ ہی ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران محمود کے والد گرامی (ملک منظور حسین مہے) سے دوچار ملاقاتیں ہی ہوپائیں کیا اجلے نکھرے سادہ اور صاف گو انسان تھے۔ نرم خو، محبت ہی محبت، مہمان نوازی اور کرم فرمائی۔
چند برس قبل جب ان کی قیام گاہ پر ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ملتان سے واپسی کے سفر میں یہی سوچتا رہا، جو شخص اولاد کے دوستوں کے لئے اتنا حلیم اور مہربان ہے اولاد کے لئے کتنا حلیم و مہربان ہوگا۔
محمود مہے کو مل کر اس کی باتیں سن کر آنکھوں کی چمک اور دانش کے فیض کو دیکھ کر یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ کیا شاندار تربیت کا شاہکار ہے۔
ملک منظور حسین مہے اب مرحوم ہوئے۔ موت کا ذائقہ ہر ذی نفس کو سفر حیات کے اختتام پر چکھنا ہے یہی لازم ہے۔ سفر حیات تمام کب ہوگا یہ وہی جانتا ہے جو خالقِ ازلی و ابدی ہے۔ ملک صاحب مرحوم کے سانحہ ارتحال کی خبر نے دل کو رنج سے بھر دیا
دو برس اُدھر جب ملک شفقت حسنین بھٹہ صاحب اور استاد محترم سید حیدر عباس گردیزی اس دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاکر چل دیئے تھے تو تب بھی یہی کیفیت تھی۔
سادہ اطوار، خوش باش، نرم خو اور ہر لمحہ متحرک رہنے والے ملک منظور حسین مہے۔ ملتان کی سیاست کے گیلانی دھڑے میں خاص اہمیت رکھتے تھے۔
سیاسی طور پر ہمیشہ پیپلزپارٹی کے ہم خیال رہے۔ ان کا گائوں "چاہ قیمے والہ موضع صالح مہے" کبھی ملتان کے مضافات میں شمار ہوتا تھا اب ملتان اس سے آگے بڑھ گیا۔ موضع صالح مہے کے سامنے ملتان یونیورسٹی ہے اسے اب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کہتے ہیں۔
ہم نام بدلنے اور پرانی تختی پر اپنی تختی لگانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملتانیوں کو یہ یونیورسٹی دی تھی تب اس کا نام ملتان یونیورسٹی ہی رکھا گیا تھا
پھر تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا دور آیا۔ جب شہروں، قصبوں، عمارتوں اور اداروں کو مسلمان کرنے کی "وبا" پھیلی۔ اس عہد ستم میں ملک منظور حسین مہے پوری استقامت کے ساتھ مارشل لاء حکومت کے شکنجے میں پھنسی پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
اپنی زمین، وسیب، تہذیب اور ثقافت سے شعوری طور پر جڑے باہمت شخص نے دھونس و جبر کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جو بات کہنی تھی صاف اور ڈٹ کر کہی، نفع نقصان کی پروا کئے بغیر۔
علاقائی سیاست میں اپنے خاص اثرورسوخ کی بدولت سیاسی دھڑوں کے لئے اہمیت رکھتے تھے مگر خود انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کے دھڑے میں رہنا پسند کیا۔
ملتانی وسوں کی ان نشانیوں میں سے تھے جنہیں مل کر سمجھ میں آتا تھا کہ ملتان ملتان کیوں ہے اور کیوں کہنے والوں نے اسے "جنت نشان" کہا ہے۔
ان سے دوچار ملاقاتیں ان کے بڑے صاحبزادے محمود مہے کے توسط سے ہی رہیں ان ملاقاتوں میں ہوئی گفتگو ہمیشہ یاد رہنے والی ہی ہے۔ سلیقے سے اپنی بات کہنا، توجہ سے دوسرے کی بات سننا، انکساری و وضعداری میں گندھے ہوئے انسان تھے۔ اپنی وسوں، زبان، تہذیب اور تاریخ سے انہیں محبت تھی اس کا اظہار بھی کرتے تھے
لیکن اگر آپ محمود مہے سے چند لمحوں کے لئے مل لیں تو سمجھ جائیں گے کہ وسوں، زبان، تہذیب و ثقافت اور تاریخ کو ترتیب کے ساتھ بناسنوار کر پیش کرنا کسے کہتے ہیں۔
وہ ایک اعلیٰ اور اجلے انسان، شفیق والد، ہمدرد انسان تھے۔ جو کہنا ہوتا دھڑلے سے کہہ گزرتے۔ دوسرے وسوں زادوں کی طرح مہمان نواز اور محفل دوستاں سجانے والے تھے۔
مرحوم ایک ایسے سچے عاشق رسولؐ تھے، جو ذکر سرکار دوعالمؐ و آلِ سیدہ بتول سلام اللہ علیہا سن کر نم آنکھوں سے دعائیں مانگتا رہے۔ ملک صاحب جہان رنگ و بو میں اپنے حصے کی زندگی گزار کر رخصت ہوئے۔
یہاں دائم کسی کو آباد نہیں رہنا یہی تو رازہائے ہستی و بستی ہے۔ شاہ حسینؓ کہتے تھے "آدمی تو بس اپنے حصے کا کام کرنے کے لئے اس جگ میں آتا ہے"۔ ملک منظور حسین مہے ان بزرگوں میں شامل تھے جنہیں ایک بار مل کر جی چاہتا تھا کہ بار بار ملا جائے۔
نرم خو دلنشیں انداز میں گفتگو کرتے تو جی چاہتا کہ اس انسان کی باتیں سنی جائیں۔ سفر حیات کی داستان، زمین اور چار اور کے لوگوں سے محبت کی کہانی۔
ہائے کیا بدقسمتی ہے بزرگ ایک ایک کرکے دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاتے جارہے ہیں اور غم روزگار سے اتنی مہلت ہی نہیں ملتی کہ ہر شام کچھ وقت نکال کر ان بزرگوں کی قدم بوسی کی جائے۔ سکون سے بیٹھ کر ان کی باتیں سنی جائیں۔
باتیں جن میں تجربہ ہے مشاہدہ اور تاریخ ہے۔ اپنے ہونے کے یقین سے بھرا انداز تکلم۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں زندگی کے اب تک کے سفر کے اس حصے میں جب والدین حیات تھے تو بہت زیادہ ان کی محبت بھری چھائو میں رہ نہیں پایا۔
اس لئے میں جب کسی دوست کے مہربان والد سے ملتا ہوں ان کا اپنی اولاد اور بچوں کے دوستوں سے شفقت بھرا برتائو دیکھتا ہوں تو رشک آتا ہے۔
کیا خوش نصیب اولاد ہے برگد کے پیڑ کی چھائوں میں پروان چڑھی۔ جب کسی دوست کے سر سے والد یا والدین کے ٹھنڈے مہربان اور گھنے سائے سے محرومی کی خبر ملتی ہے تو دکھ گہرا ہوجاتا ہے۔
گزرے لمحہ میں کسی بھی بات پر آدمی کہہ رہا ہوتا ہے چلو خیر ہے ابو دیکھ لیں گے۔ اور اگلے لمحہ خود ہی اپنے والد و رہنما کا کردار سنبھالنا پڑتا ہے۔
ہمارے زمانہ سکول کے استاد ہوا کرتے تھے فراست علی مغل، وہ کہا کرتے تھے کہ "اولاد کا اصل امتحان اور سفر والدین کا سایہ اٹھ جانے کے بعد شروع ہوتا ہے"۔
ابدی سچائی یہی ہے۔ والدین کے ہوتے ہوئے تو بس ہم ہی ہم ہوتے ہیں، ان کے بعد تو پھر سارا جہان ہے۔ والد گرامی کا سایہ سر سے ہٹتے ہی وہ گھنا برگد کا پیڑ نجانے کہاں چلا جاتاہے۔ آدمی ساعت بھر میں کڑی دھوپ میں آن کھڑا ہوتا ہے۔
حق تعالیٰ مغفرت فرمائے مرحوم ملک منظور حسین مہے کی۔ اب ان کی یادیں ہی رہیں گی اور زندہ تعارف کی صورت میں ان کی اولاد، اللہ تعالیٰ مرحوم کے پسماندگان اور احباب کو صبر جمیل عطا کرے۔
رنج و غم سے بھرے ان لمحوں میں ہم تو فقط یہی عرض کرسکتے ہی، ڈکھ دی سانجھ اے محمود بھرا۔
جب آقایانِ مصطفیؐ و مرتضیٰؑ نہ رہے جگ پر کون رہے گا۔