Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Layyah Ya Srinagar? Police Ka Jawab e Dawa

Layyah Ya Srinagar? Police Ka Jawab e Dawa

لیہ یا سرینگر ؟ پولیس کا جوابِ دعویٰ

لیہ میں پولیس گردی کی حالیہ خبروں اور پچھلے ایک واقعہ ساتھ سوشل میڈیا پر بی ایس کی طالبہ کی ویڈیو سے بنے منظر نامہ پر گزشتہ روز لکھے گئے کالم کے جواب میں لیہ کے دوستوں اور چند دیگر احباب نے دوتین نئی کہانیاں لکھ بھجوائیں۔ پولیس کی طرف سے کہا گیا کہ"روئف کلاسرا لیہ میں مرضی کی انتظامیہ لگوانا چاہتے ہیں اس لئے بلیک میل کررہے ہیں " ایک اور پیغام میں جو ایک علاقائی صحافی کا ہے کہا گیا کہ "روئف کلاسرا نے آپ کو استعمال کیا " کیسے یہ نہیں بتایا انہوں نےکیونکہ جو کچھ روئف کلاسرا نے لکھا وہ تو اخبارات میں پہلے شائع ہوئی خبریں ہی ہیں طالبہ کے موقف کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے دوسری بات پولیس کا جو موقف محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے شاعر اہلکار کامران قمر نے لکھا وہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہوا اس میں دلائل و شواہد سے زیادہ جذباتی باتیں ہیں۔

اصولی طور پر انہیں خدمات اور بلیک میلنگ کی باتیں کرنے کی بجائے تصویر کا وہ دوسرا رخ سامنے لانا چاہئے تھا جو بقول ان کے درست موقف ہے، مقامی پولیس کا موقف بھی ایک صحافی دوست نے بھجوایا ہے کسی کمی بیشی کے بغیر پہلے یہ پڑھ لیجے اس کے مطابق"پولیس نے ان کے خلاف کوئی نیا کیس درج نہیں کیا اور نہ ہی جھوٹی ایف آئی آرز درج کی ہیں۔ اس معاملے میں لڑکی کا ذکر معاملے کو ٹوسٹ کرنے کے لیے مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔

حقائق اس طرح سے ہیں کہ مورخہ 27-01-26کو مدعی محمد اختر نے مقدمہ 36/22بجرم 380/457ت پ درج کروایا۔ مدعی محمد اختر نے ملزمان 1۔ محمد راشد (2۔ محمد حاجی 3۔ محبوب اور4۔ محمد علی) پسران بہرام عرف چھوٹو 5۔ فہیم ولد غلام مصطفی6۔ محمد منور کا نامزد کروایا۔ جبکہ شہری غلام اصغر نے بھی مویشی چوری کا مقدمہ نمبر32/22تھانہ کوٹ سلطان میں درج کروایا جس میں متذکرہ بالا تمام ملزمان نامزد ہیں۔ مورخہ 04-02-2022کو ملزمان محمد ارشد اور محمد حاجی کو گرفتار کرکے مورخہ 05-02-22علاقہ مجسٹریٹ کے پیش کرکے ایک روزہ ریمانڈ جسمانی حاصل کیا، مورخہ 06-02-22کو علاقہ مجسٹریٹ نے ملزم محمد راشد کو ڈسچارج کر دیا۔

مورخہ 06-02-22کو ملزمان محمد منور اور محمد فہیم کو حسب ضابطہ گرفتار کیا،انٹیروگیشن کے دوران ملزمان نے انکشاف کیا کہ وہ چوری شدہ بکریاں محمد حفیظ قوم قصائی اور خورشید احمد قوم گدارہ سکنہ جیسل کلاسرہ کو سستے دام فروخت کرتے ہیں۔ ملزمان کے نشاندہی پرخورشید، حفیظ اور بہرام عرف چھوٹو کے مویشی بھانے سے کل 30بکریاں شناخت کےلئے لی گئی۔ جن میں سے 17مسروقہ بکریاں اصل مالکان نے شناخت کر لی، جن کی مزید جانچ پڑتال کےلئے مشتبہ السرقہ جانتے ہوئے بکریاں زیر دفعہ 550ض ف قبضہ پولیس میں لی گئی۔ اصل مالکان محمد حنیف، وزیر ولد بخت علی، محمد ادریس اور محمد امیر عبد اللہ کی مویشی چوری کی کمپلینٹ پہلے سے در ج تھی۔

مسروقہ بکریوں کی شناخت کے بعد اصل مالکان کی طرف سے 411ت پ کے تحت ملزمان محمد منور، محمد فہیم، محمد حاجی، محمد بہرام عرف چھوٹو، خورشید گدارہ محمد حفیظ کے خلاف مقدمات 59/22، 60/22، 62/22، 63/22 بجرم 411ت پ درج کیے گئے۔ باقی بکریاں حفیظ، خورشید اور بہرام کو واپس کر دی گئی، ملزمان لوڈ رکشہ کے ذریعے رات کے وقت مویشی چوری کرتے اور خورشید و حفیظ کو سستے داموں فروخت کرتے تھے۔"

آپ پولیس کا موقف پڑھ چکے یہ درست ہے یا غلط اس پر کوئی رائے دیئے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جن احباب کا خیال ہے کہ مجھے روئف کلاسرا نے استعمال کیا وہ شاید اس امر سے آگاہ ہی نہیں کے میری ان سے کبھی ملاقات رہی نہ تعلقِ خاطر تھا اور ہے،البتہ کچھ عرصہ قبل ایک تنازع میں ان کے مخالف فریق کی حمایت کرنے پر وہ مجھے خوب لتاڑ چکے بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ "میں ایک مایوس آدمی ہوں " اس تنازع میں کے حوالے سے انہوں نے ایف آئی اے کو اپنے مطلوب مجرمان کی جو فہرست دی اس میں میرا نام بھی شامل تھا اس لئے یہ بات غلط ہوگئی کے انہوں نے مجھے استعمال کیا۔

اب آگے بڑھتے ہیں گزشتہ کالم لکھتے وقت لیہ کے طالبہ والے معاملے کی خبریں طالبہ کی ویڈیو اور روئف کلاسرا کا کالم ضرور میرے پیش نظر رہا البتہ پولیس کا عمومی رویہ کچھ ہڈ بیتی اور دیگر واقعات بھی سامنے رہے۔یہ بھی کہ طالبہ کا موقف ہے کہ "ہماری بستی کے لوگوں کے احتجاج پر میرے بھائی رہا ہوئے" اگر یہ موقف درست نہیں تو پولیس نے کہیں اس کی تردید کی؟

مکرر عرض ہے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور طالبہ کے موقف کو پولیس غلط کہہ رہی ہے طالبہ اور اس کا خاندان اپنے موقف کو درست قرار دے رہا ہے،اس صورت میں تو غیر جانبدارانہ تحقیقات ہی پورا سچ سامنے لاسکتی ہے، یہی واحد طریقہ ہے سچ اور جھوٹ کو سامنے لانے کا رہا سوال اس بات کا کہ" اسلام آباد میں مقیم صحافی لیہ میں اپنی مرضی کے افسران کی تقرری کے لئے بلیک میل کرتا ہے "۔

تو نہ ہوں بلیک میل لیکن اگر ایک صحافی پولیس اور انتظامی افسر اپنی مرضی سے لگواتا یا لگواسکتا ہے تو پھر کیا تبصرہ کیا جائے سوائے اس کے کہ جو بلیک میل ہوتے ہیں اور کسی کی مرضی کی تقرریاں تبادلے کرتے ہیں ان کی کوئی کمزوری ہوتی ہوگی، ویسے ہم تو زندگی بھر ایک معاون دفتری بھرتی نہیں کروا پائے،پولیس کا موقف بالائی سطور میں لکھ دیا ہے اس کی اشاعت اس لئے ضروری ہے کہ انہیں یہ شکوہ نہ ہو کہ ہمارا موقف نظرانداز کیا گیا۔ اس معاملہ میں مذکورہ طالبہ کا خاندان یا کوئی اور اپنی بات کہنا چاہے تو اسے کالم میں شامل کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ میں اپنے گزشتہ کالم سے برات کا اظہار نہیں کررہا اس کالم میں پولیس کا موقف دینے کا فقط ایک مقصد ہے وہ یہ کہ یہ شکوہ نہ رہے کہ ہمارا موقف نظر انداز ہوا البتہ میری رائے بہرطور یہی ہے کہ اس سارے معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات از حد ضروری ہیں۔

Check Also

Maaf Kijye Ga Sab Acha To Nahi

By Haider Javed Syed