Kuch Haal e Dil Arz Karoon Gar Bura Na Lage
کچھ حالِ دل عرض کروں گر بُرا نہ لگے
بلاول بھٹو بالکل درست کہتے ہیں کہ "جو بھی وزیر مشیر ریاست مدینہ کے فضائل بیان کررہا ہوتا ہے کہ اگلے ہی لمحے اس کے منہ سے سیاسی مخالفین کے لئے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جو عام زندگی مبں بھی بولتے ہوئے لوگ شرم محسوس کرتے ہیں "۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ چند دن قبل ایک کالم میں وزیراعظم کے ایک پی ایچ ڈی معاون کی زبان دانی کے دو "نمونے" پیش کرتے ہوئے لغت سے ان الفاظ کا اصل مفہوم عرض کیا تھا چند احباب نے اس کالم کی اشاعت کے بعد پیغام بھیجا کہ یہ تو ہماری روزمرہ زندگی میں عام استعمال ہونے والے الفاظ ہیں ان پر جذباتی ہونے کی کیا ضرورت تھی۔
اس رائے پر حیرانی کم اور افسوس زیادہ ہوا۔ اب اگر آپ پچھلے دو اڑھائی ہفتوں سے بنے سیاسی ماحول میں زبان دانیوں کے فقیدالمثال مظاہروں پر غور کریں تو افسوس ہوگا اور یہ سوال آپ بھی کریں گے کہ ہمیں کس سمت لے جایا جارہا ہے؟ جواب میں محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ تو جی ہماری سیاست کا خاصا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس بدزبانی کو روکنا ضروری ہے یا اس میں حصہ ڈالنا؟ بدقسمتی سے معاملہ گالم گلوچ سے آگے بڑھ گیا ہے۔
چند دن قبل ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے ایک خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ خودکشی حرام نہ ہوتی تو میرا دل کرتا ہے کہ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے منافقین کا جہاں اجتماع ہورہا ہو وہاں خودکش حملہ کردوں تاکہ ان کا صفایا ہوجائے۔ موصوف ماضی میں پیپلزپارٹی، (ن) لیگ اور ق لیگ میں انہی منافقین کے شانہ بشانہ پرجوش انداز میں رہ چکے، وزیر مشیر بھی رہے۔
کل ایک اور وفاقی وزیر شہر یار آفریدی کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی وہ بھی ایک تقریب سے خطاب کے دوران جذباتی ہوکر بولے میرا تو دل چاہتاہے کہ میں خودکش جیکٹ پہن کر پارلیمنٹ پر حملہ کروں تاکہ "یہ" سارے جہنم رسید ہوجائیں۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے یہ دو وفاقی وزراء کے جذبات و خیالات ہیں حزب مخالف کے بارے میں ان کے ہمدردوں کے خیالات اور جذبات کا اندازہ دونوں کی تقاریر کے دوران پرجوش تالیوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
ہمارے سیاستدانوں نے ہمیں کہاں لاکھڑا کیا ہے؟ ہم جب یہ سوال چار اور کے لوگوں یا کسی محفل میں اٹھاتے ہیں تو بہت سارے عقل مند یہ کہتے دیکھائی دیتے ہیں ہمارے بازاروں گلی محلوں میں یہی زبان اور الفاظ روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ فرشتے کہاں سے آئیں؟ ان نابغوں کو کون سمجھائے کہ آسمانی مذاہب اور خصوصاً اسلامی تعلیمات کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خرابی، برائی اور بگاڑ کو روکنے کی ضرورت کا احساس کرنے کی بجائے تاویلیں گھڑنے میں وقت برباد کرتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ نامناسب الفاظ کا استعمال برا نہیں سمجھا جارہا یا کم لوگ ہیں جو اس صورتحال پر کڑھتے بولتے ہیں۔ اکثریت کا چلن وہی ہے اس لئے انہیں لگتا ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے۔
فرق پڑتا ہے اور اس دن آپ کو بھی فرق محسوس ہوگا بلکہ تکلیف بھی جس دن آپ کا بچہ یہی زبان استعمال کرے گا۔ میرے بہت سارے دوست کئی برسوں سے مجھ سے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ آپ اس صورتحال کا ذمہ دار تحریک انصاف اور اسٹیبلشمٹ کو قرار دیتے ہیں لیکن کبھی (ن) لیگ کی زبان دانیوں کی سیاہ تاریخ پر بات نہیں کرتے۔ میں ہمیشہ ان سے عرض بلکہ سوال کرتا ہوں کہ کیا کسی برائی کی آج حوصلہ افزائی اس لئے ضروری ہے کہ ماضی میں وہ کسی اور کا رزق رہی؟
برائی برائی تھی، آج بھی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی برائی ہی رہے گی۔ اس کی تحسین و تائید صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو سماجی اخلاقیات سے عاری ہوں۔ آپ سوشل میڈیا کی کسی سائٹ پر جاکر دیکھ لیجئے حکومت کے کسی ناقد یا مخالف کے اکائونٹ پر گھٹیا زبان استعمال کرنے والوں کا تعلق کس سے ہے۔
میں جب یہ عرض کرتا ہوں کہ اس بدزبانی اور دشنام طرازی کی ذمہ دار کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ بھی ہے تو اس وجہ سے کہتا لکھتا ہوں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ ہی تھی جس نے 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے لئے ایک میڈیا سیل ترتیب دیا تھا اس میڈیا سیل نے جو سیاہ خدمات سرانجام دیں وہ اگلے برسوں میں مروجہ سیاست کا حُسن بن گئیں۔
سماجی اقدار و روایات اور اخلاق کی پامالی منظم منصوبے کے تحت شروع کروائی گئی۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اس کے ذمہ داروں میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک ٹولہ، سیاسی سٹیج کے بدزبان اور محراب و منبر کے بعض کردار بھی شامل ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے ہمارے چار اور عقائد و سیاسی نظریات پر اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہوئے الفاظ کے "موتی" کیسے رولے جاتے ہیں۔ کیا میرا یا آپ کا بچہ یا ہم اور آپ عقائد و سیاسی اختلافات کے اظہار میں سوقیانہ الفاظ کا استعمال اپنی اپنی مائوں کی گود سے سیکھ کر سماج کا حصہ بنے ہیں؟
جی نہیں کم از کم 63برس کے سفر حیات میں مجھے ایک والدہ گرامی بھی اسی نہیں ملیں جنہوں نے کہا ہو ہم نے اولاد کی تربیت میں گالی، نفرت اور دشنام طرازی کو رزق کے طور پر استعمال کیا۔ سال 1998ء میں ایک فیچر پر کام کے دوران مجھے لاہور کے بازار حسن کے چند گھرانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ان سے کئی نشستوں میں فیچر کے لئے ضروری معلومات دستیاب ہوسکیں۔ کبھی کبھی ایک نشست خاصی طویل بھی ہوجاتی تھی اس دوران ان کے گھروں میں رہن سہن، بول چال اور دیگر معاملات کا بغور جائزہ لیتا رہا۔
خدا لگتی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں روزمرہ کے معمولات کے دوران جو زبان اور الفاظ بازاروں میں سنائی دیتے ہیں وہ زبان اور الفاظ مجھے "اُس بازار کے گھرانوں کی دہلیز کے اُس پار سنائی نہیں دیئے"یہ واقعہ سنانے کا مقصد آپ یا کسی کی توہین کرنا نہیں بلکہ یہ عرض کرناچاہتا ہوں کہ جو کچھ ہمارے سیاسی سٹیج اور منبروں پر بولا اچھالا جاتارہا یا اب بھی بولا اچھالا جارہا ہے اس کا رزق گلی محلوں بازاروں چوپالوں سے ہی جاتا ہے۔
ہم جس طرح ذاتی طور پر ناپسندیدہ شخص یا خاندان کے لئے سخت جملہ اچھال کر تسکین حاصل کرتے ہیں اسی طرح ہم اس وقت بھی خوش ہورہے ہوتے ہیں جب منبر سے مخالف عقیدے والوں کی ایسی تیسی پھیری جارہی ہوتی ہے یا سیاسی سٹیج سے مخالفین کے لئے دشنام طرازی ہورہی ہوتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے پسندیدہ رہنما کو تو آسمانی اوتار، ولی کامل اور نجانے کیا کیا سمجھتا ہے مخالف رہنما اور جماعت کا ذکر آتے ہی منہ سے مغلظات کی برسات شروع ہوجاتی ہے۔
یہ صورتحال، رویہ، فہم کچھ بھی درست نہیں سب غلط ہے۔ ہم بدزبانوں کی حوصلہ افزائی کریں یا بدزبانی میں حصہ ڈالیں، دونوں صورتوں میں اپنی اگلی نسلوں کے لئے بربادیاں بھر رہے ہیں۔ اختلاف رائے بالکل کفر نہیں لیکن اس کے اظہار میں غلیظ زبان کا استعمال کفر سے بھی بدتر ہے۔ اس لئے کہ بداخلاقی ماحول کو پراگندہ کرتی ہے۔
مجھے معاف کیجئے گا آج کے کالم کے لئے لیکن ایک شہری، سیاسیاست و صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے جو مجھے محسوس ہوا اس پر اپنی معروضات آپ کے سامنے رکھنا فرض سمجھا۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ اپنی آئندہ نسلوں کو بدکلامی کے رزق سے پروان چڑھاناچاہتے ہیں یا سماجی اخلاقیات کے فیض سے ان کی پرورش کرنا چاہتے ہیں؟