Khwahish, Mafhoom, Hat Dharmi
خواہشیں، مفہوم، ہٹ دھرمی
آئین کے آرٹیکل 63اے کے بارے میں خود آئین بہت واضح ہے لیکن ہم میں سے ہر شخص اس کی من پسند تشریح کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ حکومت بھی اپنی خواہشات کا ساماں کرنے کیلئے سپریم کورٹ پہنچی ہوئی ہے۔
پچھلے چند دنوں سے آئین کے اس آرٹیکل پر قانون دانوں بالخصوص آئینی ماہرین کی دانش سے استفادہ کررہا ہوں۔ گزشتہ شب سابق اٹارنی جنرل انور منصور کہہ رہے تھے منحرف ارکان کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ اعتزاز احسن کے خیال میں ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کے ووٹ کو مسترد کرنا سپیکر کے اختیار میں ہے یا اسمبلی کی کارروائی کے بعد پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس دے گا۔ تسلی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ اس رکن کی نااہلی کے لئے الیکشن کمیشن کو لکھے گا۔
دستور کے مطابق حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو پارٹی سربراہ کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس پر کرنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کسی جماعت کا ایک گروپ پارٹی پالیسی کو نادرست سمجھ کر اگر الگ سے فیصلہ کرتا ہے تو اس صورت میں کیا ہوگا۔
اس سے اہم سوال یہ ہے کہ مخلوط حکومت کی بجائے پارٹی واضح اکثریت سے حکومت میں ہو، پارٹی ارکان قائد ایوان وزیراعظم کو کیسے اپنے منصب سے الگ کریں گے اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وزیراعظم ملک اور جمہوریت کے تقاضوں سے انحراف کررہا ہے؟ یقیناً اب یہ سارے امور سپریم کورٹ میں زیربحث آئیں گے سیاسیات و صحافت کے طلبا کو قانونی ماہرین کی بحثوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
فی الوقت اس بحث سے ہٹ کر بننے والے منظرنامے پر بات کرلیتے ہیں۔ سوموار کو اسلام آباد میں مریم نواز نے کہا کہ وہ نیوٹرل ہوئے تو پی ٹی آئی بکھر کر رہ گئی۔ جواباً چند وفاقی وزراء نے اونچے سُروں میں کہا "فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے"فواد چودھری دو قدم آگے بڑھ کر بولے بھلا سپاہی بھی کبھی چور کے ساتھ کھڑا ہوا؟
فواد چودھری کے اس سوال پر دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔ ویسے لکھنے کی ضرورت نہیں لوگ سب جانتے ہیں مچلے بنے رہیں تو الگ بات ہے۔ ہماری ملکی سیاسی تاریخ کے ایک ایک ورق پر فواد چودھری کے سوال کا جواب موجود ہے۔
اصل بات جو عرض کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ سیاستدانوں کی دستیاب نسل آخر کب بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو مدنظر رکھے گی کہ فوج کا سیاسی کردار ہے ہی نہیں۔ دستور میں دیگر شعبوں کے ساتھ وزارت دفاع کے ماتحت اس محکمے کا کردار بہت واضح لکھا ہوا ہے۔ سٹاف کالج کوئٹہ میں قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے جو خطاب کیا وہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پچھلے 75برسوں سے ہمارے ملک کی حکومتیں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان جو کہتے کرتے اور اچھالتے پھر رہے ہیں اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ "تاریخی طبری" ابھی لکھی جارہی ہے۔ ہم اُن ادوار کے ماحول، رویوں اور عزائم سے آگے نکل ہی نہیں پائے جو "تاریخ طبری" سمیت دیگر کتب تواریخ کے اوراق پر پھیلے ہوئے ہیں؟
لیجے ہم اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ وزیراعظم کے ایک معاون شہباز گل کے اچھالے گئے ایک جملے پر کئی دنوں سے رونق لگی ہوئی ہے چند ایسے الفاظ جو روزمرہ کی زندگی میں بدترین گالی سمجھے جاتے ہیں وہ انہیں مقدس الفاظ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
اپنی بات کی تائید میں وہ سینئر صحافی چودھری خادم حسین کا ایک کالم تلاش کرلائے۔ چودھری صاحب قلم مزدور ہیں اور قابل احترام بھی لیکن ماہر لسانیات یا اصطلاحات ہرگز نہیں۔ خود شہباز گل کی ڈگری بھی لسانیات کے موضوع پر نہیں ہے۔ پنجاب میں بیوہ خاتون کے لئے کم از کم وہ لفظ استعمال نہیں ہوتا جس پر وہ مُصر ہیں۔
گزرے وقتوں میں جو لفظ استعمال ہوتا تھا وہ "رانڈ " یا "رنڈوی" ہے۔ زیادہ تر فوت شدہ اہلیہ کے مرد کے لئے رنڈوہ کا لفظ استعمال ہوااسی مناسبت سے شوہر سے محروم بیوہ خاتون کے لئے رانڈ بھی استعمال ہوا اور رنڈوی بھی۔ جس لفظ کے درست ہونے پر وہ مُصر ہیں لغات میں اس کے کم از کم سات سے زیادہ مطالب موجود ہیں۔ مثلاً"کسبی، بیسوا، کنخچی، طوائف، قحبہ، گانے والی، پیشہ کمانے والی"۔
یہ درست ہے کہ اردو لغت میں اس کا ایک مطلب وہی ہے جو شہباز گل پیش کررہے ہیں۔ غور طلب باتیں البتہ دو ہیں اولاً یہ کہ ایک لفظ کے اگر لغت میں آٹھ معنی ہیں اور سات معنی یکساں مفہوم کے حامل ہوں اور ایک لفظ دوسرے مفہوم کا تو اصولی طور پر سات یکساں مفہوم کو تقدم حاصل ہوگا۔ ثانیاً یہ کہ بیوہ کا جو پنجابی متبادل وہ بتا اور اس پر اصرار کررہے ہیں اسے گالی کے طور پر ہی لیا جاتا ہے۔ پنجاب میں ہی کیا اردو بولنے والوں میں بھی۔
بالائی سطور میں لفظ "رنڈی" کے ابتدائی یکساں مفہوم کے حامل سات الفاظ اسی لئے درج کئے تاکہ پڑھنے والوں کو سمجھنے میں سہولت رہے۔ اب جو لفظ معروف معنوں میں ایک گالی سمجھاجاتا ہے اس کے حوالے سے اپنے موقف کے درست ہونے پر اصرار اور سوال کرنے والی صحافی خاتون کو نخوت سے جھڑکتے ہوئے یہ کہنا کہ "آپ پنجابی نہیں ہیں میں پنجابی ہوں اور مجھے پتہ ہے پنجابی میں بیوہ کو کیا کہتے ہیں "۔ یکسر نادرست رویہ ہے۔
ایک ایسا لفظ جو گالی سمجھاتا ہو اور گالی بھی ایسی کہ اس کا مذاق بھی بھاری پڑسکتا ہو اس کے درست ہونے پر اصرار کرکے وہ محض ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہی کررہے ہیں۔ الفاظ سے زیادہ ان کا مفہوم وہ جو سمجھا جارہا ہو اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً ہم کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے "وہ تمہاری والدہ کا کھسم آرہا ہے"۔ بات غلط نہیں مگر معیوب ہے اسی لئے ہم یہی کہتے ہیں آپ کے والد بزرگوار تشریف لارہے ہیں۔ یا یہ کہ "وہ فلاں خاتون کے شوہر ہیں "۔
بات کچھ طویل ہوگئی مگر عرض کرنا ضروری تھا کہ بڑائی اسی میں ہے کہ انسان اپنی غلط مان لے اور اس حقیقت کو بھی کہ کسی لفظ کا عمومی معاشرتی مفہوم ہی مقدم ہوگا بالخصوص اس صورت میں ایک یا چند الفاظ جو روزمرہ کی بول چال میں بدترین گالی کا مفہوم رکھتے ہوں ایسے الفاظوں کو اپنی "دانش" کی لاٹھی سے درست منوانے کی ضد نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح انہوں نے انگریزی کے لفظ بروکر کا پنجابی ترجمہ دلال بتایا یہ ترجمہ انہوں نے اپنی اس گالی کے حق میں پیش کیا جو پی ٹی آئی کے منحرف اقلیتی رکن رمیش کمار کو ایک ٹی وی پروگرام میں دی تھی۔ پنجابی میں بروکر کو "وچولہ" کہتے ہیں اصل لفظ یہی "وچولہ" ہے یعنی درمیان والا۔ ایسا شخص جو دو واسطوں کے درمیان ہو، واسطے کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ معروف معنوں میں یعنی روزمرہ کی بول چال میں "دلال" کا مفہوم جو لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی ایک طرح سے گالی ہے
اس لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا ورنہ کتنے لوگ ہیں جو کمیشن ایجنٹ یا پراپرٹی ڈیلر کے لئے شہباز گل کے بروکر کے پنجابی متبادل "دلال" کا استعمال کرتے ہوں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا (موجودہ سماج) ایک ایسی مخلوق کے ہتھے چڑھ گیا ہے جسے بس اپنی بات کہنی ہے۔ یہی مسئلہ ہمارے محبوب وزیراعظم کے ساتھ ہے وہ بھی سوچے سمجھے بغیر جو منہ میں آئے کہہ جاتے ہیں پھر ان کے محبان وضاحتیں کرتے پھرتے ہیں۔
آج کل وہ کچھ ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں کہ اگر ان پر پکڑ کی جائے تو تحریک انصاف کے ہمددرد کہیں گے کہ مذہبی جذبات بھڑکائے جارہے ہیں حالانکہ خود خان صاحب مذہبی جذبات سے ہی کھیلتے آرہے ہیں پچھلی ایک دہائی سے۔
مکرر یہ عرض کئے دیتا ہوں ہم اور آپ سے زیادہ منبروں اور سیاست کے اسٹیجوں سے خطاب کرنے والوں کو الفاظ کے چنائو میں احتیاط کرنی چاہیے۔