Farz Karo Abhi Aur Ho Itni Aadhi Hum Ne Chupai Ho
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو
آدمی کیا لکھے اور کیا نہ لکھے۔ بت شکنوں کے وارث ہونے کے دعویداروں میں سے ہر شخص کے ذہن و دل میں اپنی اپنی پسند کا بت سجا ہوا ہے۔ وہ ہر لفظ سطر اور تحریر کو اپنے بت کی محبت میں دیکھتا پڑھتا سمجھتا اور پھر فیصلہ کرتا ہے کہ تعریف کرنی ہے یا گالی دینی ہے۔
چند دن اُدھر ملکی معاملات اور بالخصوص سابق حکومت کے بعض معاہدوں، پالیسیوں اور کھوکھلے وعدوں پر اعدادوشمار کے ساتھ عرض کیا تھا لوگ صرف اپنے محبوب کی بات درست سمجھتے ہیں وہ چاہے سفید جھوٹ ہو یا کالا جھوٹ۔
نوبت یہ آگئی ہے کہ اب لوگ مکالمے کی بجائے گالی اچھالنے کو بہادری سمجھتے ہیں۔ دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کی بجائے اس کی توہین و تضحیک میں راحت محسوس کرتے ہیں۔
ایک دوست نے وہ تحریر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ ایک پنجابی قوم پرست نے گالی اچھالی دوسرے نے لکھا "اس شاہ کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کی بے عزتی ہورہی ہے، دو تین اور کمنٹس بھی تھے، روح تک زخمی ہوگئی۔ کیا لوگ ہیں آپ سے کبھی ملے نہ کچھ جانتے ہیں پھر بھی واہی تباہی کو حق سمجھ کر چاند ماری شروع کردیتے ہیں۔
چند برس اُدھر ایک صاحب نے لکھا، "شاہ نے جنرل ضیاء کے دور کی قیدوبند کا رونا روتے رہنا عادت بنالی ہے۔ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا بہانہ ہے"۔ آگے چل کر انہوں نے تحریر نویس کے ذاتی عقیدے پر رکیک حملے کئے۔
یہ دو تین مثالیں ہیں ہم ایسے قلم مزدوروں کو روزانہ اس طرح کے لوگوں اور آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ کچھ احباب حوصلہ بڑھاتے ہیں لکھی گئی تحریر کے پس منظر کو سمجھ کر مکالمہ بھی اٹھاتے ہیں ان سے بات کرکے تسلی ہوتی ہے کہ کچھ لوگ تو ہیں جو تعصب و جہالت اور اندھی عقیدت کا ایندھن بننے سے محفوظ رہے ہیں
یہی لوگ غنیمت ہیں، لکھنے والے سے سارے پڑھنے والے خوش نہیں ہوتے۔ تقسیم در تقسیم ہوئے معاشرے میں آپ سبھی کو خوش نہیں رکھ سکتے بالخصوص اس صورت تو بالکل نہیں جب آپ تاریخ، مطالعہ اور مشاہدے کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔
سوشل میڈیا کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کا تعارف ایک وسیع دنیا سے ہوتا ہے اپنی بات پرنٹ میڈیا کے محدود قارئین سے باہر بھی پہنچاپاتے ہیں، لیکن ایک نقصان بھی ہے وہ یہ کہ موبائل پر اردو ٹائپ کرلینے والے دانشوڑ اخلاقیات سے بلاتکار شروع کردیتے ہیں۔
نصف صدی کی قلم مزدوری کے دوران چند ایک بار کچھ مسائل پیدا ہوئے۔ چند تحریریں روکی گئیں۔ کبھی کبھی چند سطور یا الفاظ ادارہ جاتی سنسر کی نظر بھی ہوئے۔ اخبارات و جرائد کے ادارتی شعبہ میں مختلف منصبوں پر خدمات سرانجام دے چکنے کی وجہ سے ادارے کی مجبوریوں سے کاملاً آگاہ ہوں۔
تحریر نویس کا بھی فرض ہے کہ اپنی بات اس انداز میں کرے کہ سانپ کے بل کی نشاندہی بھی ہو اور سانپ ڈس بھی نہ پائے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
"بدلتا زمانہ" سرائیکی وسیب کا دوسرا اشاعتی ادارہ ہے جس سے منسلک ہوں اس ادارے کی بنیاد رکھنے والے دوست قبل ازیں جس اخبار سے منسلک تھے اس اخبار میں کالم لکھنا برادر عزیز امتیاز احمد گھمن کے حکم پر شروع کیا تھا۔ لگ بھگ چھ برس وہاں کالم لکھتا رہا۔ اب روز اول سے "بدلتا زمانہ" کے ساتھ منسلک ہوں۔ دونوں اداروں میں مجھے اپنی تحریر کے حوالے سے کبھی مسئلہ نہیں ہوا۔ مسائل پیدا ہوئے بھی تو سابقہ ادارے میں برادر عزیز امتیاز احمد گھمن ڈھال بنے رہے یہاں سارا ادارہ ڈھال بن کر کھڑا رہتا ہے۔
لکھنے کی کامل آزادی ہی ہے اس لئے مرضی سے لکھتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے دوستوں کے سیاسی نظریات مجھ سے یکسر مختلف ہیں۔ زندگی کا اصل حسن یہی ہے کہ آپ دوستوں پر اپنی پسندوناپسند نہ مسلط کریں۔
اس طویل تمہید پر معذرت خواہ ہوں لیکن ضروری سمجھا کہ کچھ حال دل پڑھنے والوں سے بیان کردیا جائے۔ آپ کو عین ممکن ہے اختلاف ہو نظریاتی یا ذاتی جو خاندانی فہم کی بدولت آپ کا ورثہ ہے
مجھے سیاسی طور پر اے این پی اور پیپلزپارٹی پسند ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں الہامی پیغام کی علمبردار نہیں نہ ہی ولیوں اور داتائوں کی جماعتیں ہیں، ان کے سیاسی نظریات اور دونوں جماعتوں کے قائدین و کارکنوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے آپ انکار نہیں کرسکتے کریں تو آپ کا حق ہے۔
گاہے ان دو جماعتوں کی سیاسی پالیسیوں پر تنقید بھی کرلیتا ہوں البتہ مجھے احساس رہتاہے کہ میں ان جماعتوں کا کارکن نہیں ہمدرد ہوں۔ ہمدرد تنقید میں زیر زبر کا خیال کرتا ہے۔
ملک میں اور بھی سیاسی جماعتیں ہیں۔ کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی۔ سیاسی جماعت محض اعلان کردینے، لیٹر پیڈ چھپوالینے یا عہدیداروں کا اعلان کردینے سے ہی وجود میں نہیں آجاتی سیاسی جماعت بنتے بنتے بنتی ہے۔ طویل صبر آزما جدوجہد قربانیاں بالخصوص اپنے نظریہ کا فہم۔
اکثر پڑھنے والے سوچے سمجھے بغیر جب میرے سوشل میڈیا اکائونٹ پر طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرتے ہیں تو جواب دینا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی کسی ذاتی دوست کے سخت اور ناپسندیدہ لفظ یا کمنٹس پر خاموشی بھی واجب ہوتی ہے کیونکہ سیاست کے چکر میں مراسم گنوانے کا کم از کم مجھ میں حوصلہ نہیں ہے۔
میں حلاج ہوں، بلھا نہ شاہ حسیین۔ ایک عام قلم مزدور ہوں جس نے محنت سے اپنی دنیا بنائی۔ میرا سیاسی نظریہ و عقیدہ، فہم، مطالعہ اور مکالمے کا شعور، نصف صدی کی دین ہے۔ مجھے اچھے اساتذہ ملے اور مہربان دوست جنہوں نے قدم قدم پر رہنمائی کی، گاہے دست گیری بھی۔
دوستوں کی وجہ سے ہی میں محرومیوں اور ذاتی استحصال یا بعض ناگفتنیوں کا رونا نہیں روتا۔ ان سطورمیں ہمیشہ اعتراف کیا کہ دوست اور مطالعہ کے ساتھ مشقت کی عادت کو اپنی ذات سے نکال دوں تو کچھ بھی نہیں بچتا۔
مجھے تکلیف ہو یا پریشانی اپنے ذاتی دوستوں سے کہتا ہوں۔ ایمان کا ساتواں رکن دوستوں کو سمجھتا ہوں۔ ان مہربان دوستوں اور ان کی مہربانیوں کا ذکر کرنے لگوں تو ایک سے زائد دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔
قصہ مختصر میری آپ سے یہی درخواست ہے کہ میری فہم اور تحریر آپ کو ناپسند ہیں تو گزارا کیجئے یا کنارا۔
اختلاف رائے آپ کا حق ہے دلیل سے اپنا حق استعمال کریں، تدبر و تحمل سے جواب عرض کروں گا۔ اختلاف رائے ہوتے ہوئے چاپلوس، لفافہ صحافی کی پھبتی کسیں نا گالی دیں۔
مجھے آپ کے محبوب لیڈروں سے کوئی ذاتی عداوت نہیں فہمی اختلاف ہے ان کی سیاسی اٹھان اور کرداروعمل کی وجہ سے۔ البتہ جو سیاسی رہنما مجھے اچھے لگتے ہیں انہیں بھی نائب خدا کے درجہ پر فائز نہیں سمجھتا۔
اپنی محنت مزدوری سے زندگی بسر کرتا ہوں۔ طویل عرصہ پشاور اور لاہور کے اخبارات سے منسلک رہا الحمدللہ دونوں جگہ قائم صحافی کالونیوں میں پلاٹ نہیں لیا کیونکہ میں ریاست کی خیرات بھی خود پر حرام سمجھتا ہوں۔
نہ لینے کی وجہ کوئی پارسائی ہرگز نہیں بس دل نہیں مانا۔ میری رائے میں ہم قلم مزدوری کے لئے صحافت کے شعبہ میں اپنی خوشی سے آئے تھے کسی مافیا کا حصہ بننے کے لئے نہیں۔ ریاست اگر ہر شہری کو علاج، رہائش، تعلیم وغیرہ کی سہولت دے تو ایک شہری کے طور پر میرا بھی حق ہے لیکن اگر ریاست و حکومت کا مقصد کسی خاص طبقے کی خوشنودی ہو تو ہم ایسے ہی اچھے۔
حرف آخر یہ ہے کہ آج کا کالم ہمدردیاں حاصل کرنے، خود کو ولی کامل کے طور پر پیش کرنے یا داد طلب کرنے کی خواہش پر نہیں لکھا۔ بس کچھ باتوں اور رویوں پر دل دکھا اس لئے دل کی باتیں پڑھنے والوں سے کرلیں۔ ابن انشا مرحوم کے بقول
فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو