Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Bilawal Ke Long March Se Wazir e Azam Ki Dhamki Tak

Bilawal Ke Long March Se Wazir e Azam Ki Dhamki Tak

بلاول کے لانگ مارچ سے وزیراعظم کی دھمکی تک

پیپلزپارٹی کا عوامی لانگ مارچ وسطی پنجاب کے جی ٹی روڈ پر ہے۔ وہی جی ٹی روڈ جسے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لانگ مارچ سندھ میں تھا تو کہا گیا وڈیروں کے ذہنی نسلی غلام سندھی دیہاڑی پر اس کا حصہ ہیں، 30ہزار روپے فی کس کی "شُرلی" مرشد ملتانی نے چھوڑی تھی۔

سرائیکی وسیب سے لانگ مارچ گزرا تو ارشاد ہوا پنجاب میں آئیں تو پھر دیکھیں گے۔ لیجئے لانگ اب پنجاب میں ہے۔ اتوار کو لاہور میں اس لانگ مارچ کی وجہ سے جشن کا سماں تھا۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب لاہور کے مرکزی حصہ میں جو رونق دیکھنے میں آئی وہ "چاند رات" جیسی تھی۔

لانگ مارچ کی جلسیوں سے ہمیں کوئی خوف نہیں " کہنے والے فرخ حبیب اطلاعات کے وفاقی وزیر مملکت ہیں۔ پتہ نہیں انہوں نے ضیاء کی جیل سے رہائی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا ناصر باغ لاہور والا وہ جلسہ دیکھا تھا یا نہیں جس نے فوجی حکومت کو مجبور کردیا کہ بھٹو کو راستہ سے ہٹایا جائے۔

1986ء میں ان کی عمر کیا تھی جب ناصر باغ کے چار اور کی سڑکوں پر بینظیر بھٹو کے استقبال کے لئے ہجوم تھا۔ اتوار 6مارچ کو تقریباً ایسی کی صورت حال تھی۔ بلامبالغہ چوبرجی سے مینار پاکستان کے درمیانی حصہ میں لوگ ہی لوگ تھے۔ جیالوں کی متروک نسلوں کے نمائندے خاندانوں سمیت ناصر باغ کے باہر تھے۔ اس لانگ مارچ سے پیپلزپارٹی مجموعی مقاصد حاصل کرسکتی ہے یا نہیں اس پر بحث اٹھائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سندھ کے چند اندرونی اضلاع کی پارٹی نے لاہور میں اپنی زندگی کا چشم کشا ثبوت فراہم کردیا ہے۔

ڈی چوک کی خالی کرسیوں سے تاریخی خطاب، گھنٹوں لائیو دیکھانے والے الیکٹرانک میڈیا کے بڑے حصے پر سکتہ طاری ہوگیا۔ یو ٹیوبروں کے اوسان خطا ہوئے اور سوشل میڈیا مجاہدین کے پاس آخری توپ کا گولہ جو وہ پھینک چکے یہ تھا کہ بلاول کا عوامی مارچ "باجوہ سپانسرڈ" ہے۔ صرف یہ کہنا بھول گئے کہ کراچی سے لاہور تک اس لانگ مارچ کی اصل رونق چھاونیوں کے "سادہ پوش" سپاہی تھے۔

ان سطور میں تواتر کے ساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ اگر وقت کے حساب سے سیاسی جماعت کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنا ہے تو دو ہزار دو میں ننانوے فیصد مسلم لیگ (ن)، ق لیگ میں بھرتی ہوچکی تھی۔ ہم ایسے طلباء اس وقت بھی عرض کرتے تھے تاریخ کا جبر اور تاریخ دو الگ چیزیں ہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور کے ایک ضمنی انتخابات میں اگر پیپلزپارٹی کے چند اپنوں نے ہی پارٹی کی پشت میں خنجر نہ گھونپے ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا ان چند اپنوں کو خطرہ یہ تھا کہ اگر اسلم گل جیت گیا تو پکا (مستقل) ہوجائے گا۔

اس خطرے سے نمٹنے کے لئے انہوں نے اندر کھاتے (ن) لیگ سے 'سمجھوتے" کئے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے۔ فی الوقت یہی عرض کرنا مقصود ہے کہ برداشت کیجئے، سڑک کی زبان میں "پاس کر یا برداشت کر"۔

بلاول نے لاہور میں کہا "ہماری جماعت مسلم اور غیرمسلم کے امتیاز کی قائل نہیں اس ملک میں تمام شہریوں کے بلاامتیاز مذہب و عقیدہ یکساں حقوق ہیں "۔ پیپلزپارٹی میں خامیاں ہیں اور غلطیاں بھی سرزد ہوئیں اب اگر اس کی سیاسی واپسی ہضم نہیں ہورہی تو 1988ء میں آئی جے آئی کا میڈیا سیل جو زبان استعمال کرتا تھا وہی زبان آپ کیوں استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی عمل آگے بڑھتا ہے سیاسی جماعتیں حالات سے سیکھتی ہیں۔ موروثی سیاست کیا ہوتی ہے، کبھی 24 سالہ شخصی آمریت میں سانس لیتے ہوئے اس پر غور تو کرکے دیکھیں۔

لوگ جدوجہد کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی بینظیر بھٹو کو ملی ضرور مگر ذرا بینظیر بھٹو کی جدوجہد پر ایک نگاہ تو ڈالئے۔ بلاول کی جدوجہد ابھی شروع ہوئی ہے۔ انقلاب کی دہائی نہیں دے رہا وہ نہ تبدیلی کا خوانچہ لئے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی کو اسی ملک میں سیاست کرنا ہے جس میں دوسرے کررہے ہیں۔ پنجاب اس کے یا کسی کے لئے علاقہ غیر نہیں بلکہ ملک کا کوئی بھی حصہ کسی کے لئے علاقہ غیر نہیں ہے، یہاں کالعدم تنظیمیں نام بدل کر سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں تو سیاسی جماعتوں پر قدغن کیوں؟

حالت یہ ہوگئی ہے کہ وزیر اطلاعات گلی محلوں کے لپاڑوں کے ٹیوٹ ری ٹیوٹ کررہے ہیں۔ چند برس قبل وہ اسی پیپلزپارٹی کا پرجوش حصہ تھے تب وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے کیا کہتے تھے وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔

وزیراعظم اتوار کے روز وہاڑی کی تحصیل میلسی میں جلسہ سے خطاب کررہے تھے، ارشاد ہوا، "گیدڑ، بھگوڑے، پالشی، چور ڈاکو لٹیرے، بے بی، بیماری"، سانس لینے کے بعد فرمایا ریاست مدینہ کی بنیاد اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر رکھی گئی تھی۔ نئی ریاست مدینہ کے اعلیٰ اخلاقی اصول کیا ہوں گے یہی جس اخلاق کا میلسی میں مظاہرہ کیا گیا؟ یا ان کے بعض ہمنوائوں اور گالم گلوچ بریگیڈ کا ہے؟ فقیر راحموں کے بقول وزیراعظم کی تقریر "الجھنوں " سے عبارت تھی۔ ایک دھمکی بھی دی عالی جناب نے۔ فرمایا، "اپوزیشن جانتی ہے نا اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو میں اس کے ساتھ کیا کروں گا؟"

یقیناً جانتی ہوگی اپوزیشن اس بات کو کہ وزارت داخلہ کے ماتحت ایک محکمہ کے اہلکار ضلعی سطح پر متحرک سیاسی کارکنوں کی فہرستیں کیوں بنارہے ہیں۔ چل چلائو کے موسم میں ہر حکومت کا سب سے زیادہ نزلہ اہل صحافت و سیاست پر ہی گرتا ہے۔ ماضی میں سانحات کو اپنے راستے میں رکاوٹیں قرار دینے والوں کے حامی اب سانحہ سانحہ پشاور پر کہہ رہے ہیں، کیا، تین باتیں۔ پہلی یہ کہ یہ سب تواپوزیشن کا کیا دھرا ہے، دوسرا یہ کہ روس کے دورے کی سزا دی ہے امریکہ نے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ بھارت ہم سے خوف زدہ ہے یہ اس کا کام ہے۔

معاف کیجئے گا یہ چند باتیں یونہی درمیان میں آگئیں۔ ہم پیپلزپارٹی کے عوامی لانگ مارچ پر بات کررہے تھے۔ پیپلزپارٹی نے بڑے عرصہ بعد سیاسی عمل میں اپنے وجود کو سٹریٹ پاور کے ذریعے ثابت کیا۔ دلچسپ موقف ان سابق جیالوں کا ہے جو وقتی مفادات پر انصافی ہوئےتھے اور ہیں

ندیم افضل چن کی واپسی پر ماضی کے سارے لوٹے، لوٹا لوٹا کی گردان میں مصروف ہیں بعض کا خیال ہے چن نے لالہ باجوہ کے حکم پر پارٹی تبدیل کی ہے۔ ایک دوست سے ہم نے گزشتہ روز عرض کیا 2008ء اور 2013ء میں جو لوگ ق لیگ سے (ن) لیگ میں آئے تھے وہ کس کے حکم پر واپس آئے؟ ارشاد ہوا وہ اپنے گھر واپس آئے (ن) لیگ سے ہی ق میں گئے تھے۔ اپنے دوست محمد اختر کے اس جواب پر کیا تبصرہ کروں اس کی ضرورت نہیں۔

پیپلزپارٹی یا کوئی دوسری جماعت اپنے سابقین کو واپس لیتی ہے تو ہم اعتراض کیوں کریں۔ مروجہ سیاست کے چلن یہی ہیں۔ ایک وفاقی وزیر کے علاوہ تبدیلی کی پرجوش حامی متنازعہ صحافی سے عرض کیا، قبلہ شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، بابر اعوان، خسرو بختیار، عثمان بزدار، بریگیڈیئر اعجاز شاہ، شفقت محمود وغیرہ کہاں سے آئے تھے؟ دونوں ناراض ہوگئے۔

ہمیں سمجھنا ہوگا یہاں انقلابی سیاست کوئی بھی نہیں کررہا سیاست برائے حصول اقتدار کے مروجہ لوازمات سے کسی نہ کسی وقت سب انصاف کرتے ہیں۔ کبھی چودھری پرویزالٰہی پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو قرار پائے تھے، ایم کیو ایم والوں کو دیکھ کر خون کھولنے لگتا تھا۔ آج پرویزالٰہی اور ایم کیو ایم نفیس لوگ کس کے ساتھ ہیں۔ شیخ رشید کو تو چپڑاسی بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے وزیر داخلہ بنالیا۔

ہمارے قائد محترم کامریڈ نوازشریف نے ق لیگ میں جانے والوں کو غدار قرار دے کر واپس نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ مشرف کی ایمرجنسی کا مسودہ تیار کرنے والے وزیر قانون کو سب سے پہلے واپس لیا اسی زاہد حامد کو وزیر قانون بھی بنایا۔ مکرر عرض ہے ہمارا کام سیاسی جماعتوں کے پروگرام کے حوالے سے خامیوں خوبیوں کی نشاندہی ہے۔ یہاں انقلاب کی تیاریاں نہیں ہورہیں۔

حیرانی ان پہ ہے کہ جو پچھلے چند ماہ سے جرنیلوں کی نوازشریف سے ملاقاتوں کی کہانیاں سنارہے تھے اور تازہ ترین دور کی کوڑی یہ لائے کہ خود جنرل باجوہ نے بلجیم کے دورہ کے دوران پراسرار طور پر لندن پہنچ کر نوازشریف سے ملاقات کی ہے وہ بھی پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کو اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی نئی باجوہ پارٹی کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم والے عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے کوشاں ہیں۔

کیا ہم یہ "کہہ" سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی معرفت سول سپر میسی کے علمبردار پی ڈی ایم نامی اتحاد نے لالہ باجوہ کے دست حق پرست پر بیعت کرلی ہے۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib