Band Gali Se Bach Ke Bhaiyo
بند گلی سے بچ کے بھائیو
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم (ہمارا تقسیم شدہ سماج) بند گلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی وفاداریوں کی اتھل پتھل پر ایک شور برپا ہے۔ مخالفین کے ساتھ ناقدین کو بھی ننگی گالیاں دی جارہی ہیں۔ مذہب اور حب الوطنی کے خوانچہ لئے پھیری والے صدائیں لگارہے ہیں۔ سودے بک رہے ہیں۔ تکرار تو ہے لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں ہر حکومت نے مذہبی تعصبات اور حب الوطنی کے کنستر بجاکر ماحول کو آلودہ کیا اب بھی یہی ہورہا ہے۔
جب آپ سیاسی محاذ آرائی کو کفرواسلام کی جنگ بناکر پیش کریں اور اپنے حامیوں کو اکسانے لگیں کے اچھے مسلمان اور سچے پاکستانی فقط آپ ہیں تو سجھ لیجئے آپ شکست خوردہ ذہنیت کے نمائندے ہیں۔ بعض ارکان اسمبلی اور وزراء کے انداز بیاں پر کم از کم اس طالب علم کو کوئی حیرانی نہیں۔ خوانچوں پر مال وہی سجتا ہے جو بکتا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وزیراعظم نے اتوار کو مالاکنڈ میں (مالاکنڈ کا یہ جلسہ بذات خود انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تھا) انصاف قانون، اخلاقیات کی دہائی دی پھر ساتھ ہی کہا"پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو لوگ شادیوں میں نہیں بلائیں گے، ان کے بچوں کے رشتے نہیں ہوں گے، سکولوں میں ان کے بچوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے"۔
اب آپ کو سمجھ میں آیا کہ مسلم امہ اور پاکستان کی آخری امید قرار پانے والے وزیراعظم کہاں کھڑے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ جس وزیر داخلہ کا کام امن و امان کو برقرار ر کھنا ہے وہ ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر بیٹھ کر مخالفین کو لعنتیں بھیج رہا ہے جواب میں پھول تو نہیں برسیں گے۔
افغان مسئلہ کے لئے منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس سکیورٹی مسائل کی وجہ سے اسلام آباد میں ہورہی ہے۔ کیا ہمیں سوال کرنے کی اجازت ہے کہ آخر ہم افغانستان کی ٹھیکیداری سے دستبردار کیوں نہیں ہوجاتے؟ یاد کیجے ایسی ہی ایک او آئی سی کانفرنس سے منہ موڑ کر ہم نیا مسلم جہاں آباد کرنے چلے تھے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ پھر کیا ہوا؟ ویسے کسی دن ٹھنڈے دل سے غور تو کیجئے افغان پالیسی نے ہمیں (ملک کو) کیا دیا۔ گہرے گھائو، لاشیں، بارود کی بو، معاشی ابتری کے سوا؟
اس بدنصیبی کو ہمارے مقدر میں لکھنے والے کون تھے اور اب کیا مجبوری ہے راستہ اورپالیسی بدلنے میں۔ افغان جانیں اور دنیا ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے۔ مکرر عرض کرتا ہوں جس سمت ہمارا اجتماعی ہانکا ہورہا ہے اس سمت کے اختتام پر بند گلی ہے کھلا میدان نہیں۔ جو لوگ دستوری شقوں کی من پسند تشریحات میں مصروف ہیں ان کی قانونی مہارت سے زمانہ آگاہ ہے۔
فواد چودھری کا یہ کہنا کہ "ہم نے 63اے کے معاملے پر ریفرنس دائر کر کے سپریم کورٹ کو موقع دیا ہے"۔ صریحاً غلط ہے کیا مطلب اگر سپریم کورٹ آپ کی تشریحات سے اتفاق نہیں کرے گا تو آپ سماج کو آگ سے بھردیں گے؟ عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں انہیں سمجھنا ہوگا کہ فواد چودھری، شیخ رشید اور شہباز گل جیسوں کا کچھ بھی دائو پر نہیں لگا ہوا۔ ہم عرض ہی کرسکتے ہیں اس کے سوا ہمارے بس میں کچھ نہیں۔
بار دیگر عرض ہے تحریک عدم اعتماد، وحدت اسلامی و ملکی سلامتی پر حملہ ہے نہ کوئی عالمی سازش۔ بالفرض اگر ہم مان لیتے ہیں کہ یہ وحدت اسلامی و ملکی سالمیت پر حملہ ہے اور عالمی سازش بھی ہے تو کیا پھر اس پرانے الزام کو بھی مان نہ لیا جائے کہ مرحوم حمید گل وغیرہ کا عمران خان کو سماج سدھاری کے راستے ہیرو بناکر سیاسی میدان میں اتارنا بھی ایک سازش تھی؟
ہم اُن برسوں میں بھی ان کالموں میں عرض کیا کرتے تھے کہ یہ عالمی سازش سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی اس خواہش کا نتیجہ ہے کہ دو جماعتی نظام میں پرواسٹیبلشمنٹ ایک تیسری جماعت موجود ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے یہ بھی عرض کیا تھا احتیاط کیجئے کیونکہ پچھلی دہائیوں میں آپ نے جتنے سیاسی مذہبی جہادی تجربے کئے وہ صرف آپ کے ہی گلے نہیں پڑے بلکہ اس ملک میں آباد لوگوں کے گلے بھی پڑگئے۔
آپ کے تجربوں کا خمیازہ ان کو بھی بھگتنا پڑا جن کا اس سے دور دور تک لینا دینا کوئی نہیں تھا۔ اب جو چار اور ہورہا ہے اور اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ خدشہ اور مشورہ دونوں درست تھے۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا چھوٹا بڑا خود کوحکیم لقمان سے کم دانا سمجھتا ہی نہیں۔ ان میں سے ہر شخص کا خیال ہے کہ اس کی تخلیق رہنمائی کے لئے ہوئی ہے کل کرہ ارض کی عقل اس کے دماغ میں رکھ دی خالق نے اس عقل کل ہونے کے زعم کا شکار مخلوق کی وجہ سے ہم نے کیسے کیسے دن نہیں دیکھے وقت میسر ہوتو یاد کیجے گا؟
کیا مزید دن دیکھنے واجب ہیں؟ معاف کیجئے گا ہمارا جواب نفی میں ہے اس لئے کہ ہمیں اور آپ (عام لوگوں) کو یہیں رہنا ہے یہ سول و اسٹیبلشمنٹ کے بڑے تو پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں۔ جان شکنجے میں ہماری اور آپ کی آتی ہے۔
پچھلے ہفتہ بھر سے برپا طوفان بدتمیزی سے بنتے ماحول سے خوف آنے لگا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے حامیوں کے خلاف معاشرے میں جو نفرت قومی اتحاد والوں نے پیدا کی تھی ویسی ہی نفرت اور تعصب آج کی حکمران قیادت اور اس کے حامی اپنے مخالفین کے بارے میں پیدا کررہے ہیں۔
بندگان خدا قومی اتحاد والوں نے جو بویا وہ ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔ اس ملک کے لوگوں پر رحم کیجئے لاریب تحریک انصاف کے جن ارکان اسمبلی کو اپنی جماعت اور حکومت سے شکایات ہیں انہیں مستعفی ہوکر حلقہ ہائے انتخاب کے رائے دہندگان سے رجوع کرنا چاہیے تھالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلور کراسنگ کے قانون کا اطلاق پارٹی پالسی کے خلاف ووٹ دینے کی صورت میں ہوگا۔ کسی ایک رکن نے اگر عدم اعتماد کے مرحلے میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا اسے شوکاز نوٹس جاری ہوگا جواب کے بعد پارٹی سربراہ اس کی نااہلی کے لئے الیکشن کمیشن کو لکھے گا۔
یہ کہنا کہ محض اختلاف رائے کے اظہار پر تاحیات نااہل کردیا جائے آمریت کی ایک نئی قسم متعارف کروانا ہے۔ ثانیاً یہ دستور سے انحراف کا شوق بھی ہے۔ کھمبیوں کی طرح اگ آئے یوٹیوبرز کو بھی عمران خان ہی سمجھائیں کہ وہ آگ سے کھیلنے سے گریز کریں۔ مگر اس کا کیا کریں کہ خود خان صاحب بھی آگ سے کھیلنے پر آمادہ بلکہ تیار لگتے ہیں۔ ان کی حالیہ تقاریر سے (گو وہ ہمیشہ ایسی ہی تقاریر کرتے ہیں) ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے ہر مخالف اور ناقد پر زمین تنگ کردینے کے آرزو مند ہیں۔
کیا ہم کسی ایسی لڑائی اور نفرت کے متحمل ہوسکتے ہیں جو ہماری دہلیز کے باہر ہو؟ خان صاحب کو شکوئوں اور شکایات کے دفاتر کھولنے سے قبل ایک نگاہ اپنے اتحادیوں پر ڈال کر ماضی کے ان دنوں کی یادیں تازہ کرنی چاہئیں جب وہ ان اتحادیوں کے لئے ایسی ہی باتیں کرتے تھے جو آج کل جلسوں میں منحرفین کے لئے کرتے ہیں۔
اس پر بھی افسوس کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے مذہب کو مسلسل ایک ہتھیار بنارکھا ہے اس پر ستم یہ ہے کہ بلاول کو "اڑدو" سیکھنے کا مشورہ دیتے دیتے وہ خود بھی کبھی اردو اور کبھی عربی الفاظ کے تلفظ کی ٹانگیں توڑنے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔ لوگوں نے تو ماضی کی حکومتوں کو بھی ووٹ دیئے تھے پھر وہ کیوں ان کے خلاف سازشوں کا حصہ بنے؟
بہت احترام کے ساتھ عرض ہے یہ ملک ہم سب کا ہے ہمارا اور آپ کا۔ اسلام اس ملک میں آباد لوگوں میں سے 93 سے 95 فیصد کا مذہب ہے اس لئے براہ کرم مذہب اور حب الوطنی کو ہتھیاکر بناکر سیاسی معاملے کو کفرواسلام اور حب الوطنی و غداری کے تماشے نہ ہی لگائیں تو اچھا ہے۔
تعصبات اور نفرتوں کی آگ بھڑک اٹھے تو یہ اپنے پرائے کا گھر اور دامن نہیں دیکھتی بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کے دونوں فریق دانش مندی کا مظاہرہ کریں بالخصوص وزیر داخلہ اگر چند دن زبان دانی سے پرہیز کرلیں تو اچھا رہے گا۔