Aur Phir Tehreek e Adam Etemad Aa Hi Gayi
اور پھر تحریک عدم اعتماد آہی گئی
منگل خاص بلکہ کچھ زیادہ ہی خاص الخاص دن رہا۔ بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کا عوامی لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچے۔ اپوزیشن کے تین بڑوں سابق صدر آصف علی زرداری، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جارہی ہے۔
اسی دن اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے لئے 102 ارکان کے دستخطوں سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے ریکوزیشن جمع کروادی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کہتے ہیں، قواعدوضوابط جو کہتے ہیں وہی ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک "دفاعی مورچے" میں ڈٹے ہوئے یوٹیوبرز، مجاہدین سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ملکی، علاقائی اور عالمی صورتحال کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔
فقیر راحموں کہتے ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کبھی مرشد نے یوگنڈا کے وزیر خارجہ کو مسئلہ کشمیر پر "اعتماد" میں لیا تھا۔ قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کے پاس 179 ووٹ ہیں اور متحدہ اپوزیشن کے پاس 162ووٹ۔ اپوزیشن کو عدم اعتماد کی گنتی پوری کرانے کے لئے مزید 10ووٹ درکار ہیں 172 ووٹوں سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوسکتی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے اسے 179 میں سے 202 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
وزیراعظم نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو "اُن کی آخری واردات" قرار دینے کے ساتھ کہا ہے فوج چوروں کے ساتھ نہیں پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی"۔ "امید" ظاہر کی ترین بھی چوروں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔
فقیر راحموں مجھے اس بیان کی تفسیر سمجھارہے ہیں لیکن بیان کرنے میں امر مانع ہے۔ اسی دوران ہمارے "قومی بیمار" چودھری شجاعت حسین لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیام گاہ پر ان سے ملاقات کی۔
سازشی تھیوریوں کا بھوجن کرنے والوں کا "خیال" ہے چودھری جی اسٹیبلشمنٹ کا خاص پیغام لے کر آئے تھے۔ اس پیغام کے دو ترجمے دستیاب ہیں اولاً یہ کہ "سانوں کج نہ کیہا جے"۔ ثانیاً "ساڈے تے نہ ریہا جے"۔ فقیر راحموں نے تیسرا ترجمہ بھی بتایا۔ اس کے بقول "سانوں این آر او دے دیو"۔ ان تین تراجم کی تفسیر پر پورا دفتر تحریر کرنا پڑے گا کالم کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ تینوں تراجم کا مرضی سے مطلب نکال کر عنداللہ ماجور ہوں۔
وزیراعظم نے الزام لگایا ہے کہ ہمارے ارکان کو 18، 18 کروڑ روپے کری پیشکش ہورہی ہے۔ ان کے یوٹیوبر مجاہدین اور وزرا و مشیران پیشکش کی رقم 70کروڑ روپے سکہ رائج الوقت نقد بتارہے ہیں۔ ہم نے کس کے دعویٰ پر اعتماد کرنا ہے، کوئی بتلائے تو سہی؟
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ فوج وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔ سیاسی ضرورتوں کے لئے دونوں فریق اگر اسے نہ گھسیٹیں تو اچھا ہے۔ گھسیٹتے ہیں تو پھر رویا نہ کریں۔ پنجاب میں علیم و ترین گروپ والے ہمارے مشوم بھولے بھالے عثمان بزدار کی جان، معاف کیجئے گا، وزارت اعلیٰ کو آگئے ہیں کہتے ہیں مائنس بزدار سے آگے بات کریں۔
یعنی گڈی نان سٹاپ ہے "عوامی جمہوریہ بارتھی" میں سٹاپ نہیں ہوگا۔ ٹھیکیدار، وچولے۔ درجن بھر عم زاد، ماموں زاد، خالہ زاد پریشان ہیں ان کا کیا ہوگا۔ ملازمتوں کے لئے پیسے دینے والے اپنا سوال لئے گھوم رہے ہیں پیسے پکڑنے والے اپنا دکھڑا بیان کررہے ہیں۔ خود عثمان بزدار اس بات کے قائل ہیں کہ عالمی طاقتوں نے وزیراعظم کے خلاف جو سازش رچائی ہے اس سازش کا شکار "میں " یعنی سردار عثمان بزدار بھی ہوں گا۔
جب یہ کالم شائع ہوگا تو وزیراعظم کراچی میں ایم کیو ایم کے نفیس لوگوں سے ملاقات کرچکے ہوں گے۔ پیر پگاڑا کو اگر ان کی "علالت" نے اجازت دی تو وزیراعظم کنگری ہائوس (یہ پیر صاحب کی قیام گاہ ہے) پر بھی رونق لگاچکے ہوں گے۔ علیم خان کو وزیراعلیٰ تسلیم نہ کرنے کے اعلان کے بعد ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل لرحمن سے ہنگامی ملاقات خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ (ن) لیگ کو "راضی بہ رضا" کرنا مولانا اور زرداری کا کام ہے۔ "سانوں کی"۔
بابر اعوان نے وزیراعظم کو ان 28ارکان کا نمدہ کسنے کا مشورہ دیا ہے جنہیں دو دن قبل وزارت داخلہ کے ماتحت محکمے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے مشکوک قرار دیا تھا۔ نمدہ کیسے کسنا ہے یہ وزیراعظم جانتے ہیں بابر اعوان یا آئی بی والے۔ جی ٹی روڈ پر بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے دس روزہ عوامی لانگ مارچ کی پذیرائی دیکھ کر نصف درجن سے زائد اینکر دانشور بلاول کا انٹرویو کرنے پہنچ گئے۔ جی ٹی روڈ سے قبل انہیں لانگ مارچ کیوں نہ دیکھائی دیا سادہ سی بات ہے جی ٹی روڈ ہی اب "اصل" پاکستان ہے باقی تو نیازمند ہیں۔
عوامی لانگ مارچ کے اسلام آباد داخلے کے وقت اے این پی کا بطور جماعت اس میں شریک ہونا ایک نئے سیاسی اتحاد کا ابتدائیہ لگتا ہے جس کے لئے پچھلے کئی ماہ سے کوششیں جاری ہیں کہ ترقی پسند جماعتوں کو ایک اتحاد کی صورت میں اکٹھا کرلیا جائے۔ اے این پی کا خیبر پختونخوا اسلام آباد آنے والا قافلہ اس کے کارکنوں کی شرکت کے حوالے سے مثالی تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے چند دن قبل کہا تھا کہ اگر میں حکومت میں نہ رہا تو باہر نکل کر زیادہ خطرناک ہوجائوں گا۔ پچھلے تین چار دن سے وزیر داخلہ، سوشل میڈیا مجاہدین انصافی ٹائیگر یہی "سوا" لئے پھر رہے ہیں۔
بلوچستان سے عبدالقدوس بزنجو کے خلاف بغاوت کی اطلاعات ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے بعد صوبائی وزیر ظہور بلیدی سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے۔ سبی میں منعقد ہونے والے سالانہ سبی میلہ سے صدر مملکت کی رخصتی کےبعد ہونے والے خودکش دھماکہ میں ایک سکیورٹی اہلکار جاں بحق اور 15زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ غیرملکی ذرائع ابلاغ 7سکیورٹی اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔
یہ طے ہے کہ میدان لگ سج گیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کے 8ارکان نے عدم اعتماد پر رائے شماری کے وقت اس (حکومت) کا ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا ہے۔ وزیراعظم کے اپوزیشن پر 18کروڑ روپے میں ایک رکن خریدنے کے الزام میں روشنی میں ادب کے ساتھ یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ حکومت نے 8بندے فی کس، کس حساب سے اٹھائے"؟
سیاسی میدان گرم ہے۔ عالمی سازش کی کہانیاں بیچی جارہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان میں مماثلت تلاش کرکے موقف میں رنگ بھرا جارہا ہے۔ بھٹو بہرطور بھٹو تھے۔ عمران خان کا شخصی احترام اپنی جگہ لیکن ان کا بھٹو صاحب سے موازنہ بنتا ہی نہیں۔ عالمی سازش کے الزامات فقط کہانیاں ہیں۔ قرضوں کے محتاج ملک کے خلاف سازش کی ضرورت ہی نہیں۔
خارجہ پالیسی جناب عمران خان کا میدان ہی نہیں۔ ان کا میدان کچھ اور ہے وہ بس مخالفین کو چور ڈاکو لٹیرے، گیدڑ، بے بی، بھگوڑے، ڈیزل، بیماری جیسے القابوں سے یاد کرسکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کو للکارنے پر عمران خان کے جو متوالے ٹائیگرز دھمال ڈال رہے ہیں مفت ویزہ اور فری سروس (یعنی من پسند ملک تک بغیر کرائے کے لے جانے کی پیشکش) کا اعلان ہوتے ہی 90فیصد پتلی گلی سے نکل لیں گے۔
ویسے بھی ہم پیدا تو اپنی مرضی سے نہیں ہوتے، جینا رہنا یورپ میں چاہتے ہیں اور تدفین جنت البقیع میں۔ باقی رہے نام اللہ کا، چلتے چلتے یہ کہ روسی پٹرولیم مصنوعات پر پابندیوں کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 134 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ امید واثق ہے کہ یہ 138 ڈالر سے تجاوز کرے گی۔ پسماندہ ملکوں میں مہنگائی کی ترقی کا نیا سیلاب آئے گا۔