Apni Adaon Par Sabhi Ko Ghor Karna Hoga
اپنی ادائوں پر سبھی کو غور کرنا ہوگا
پہلی بات تو یہ کہ ہمارے اساتذہ کرام فرماتے تھے "غیرجانبداری نامی کوئی چیز دنیا میں نہیں ہوتی۔ زندہ انسان جانبدار ہی ہوتا ہے البتہ اپنی جانبداری کا عصری شعور کے ساتھ جائزہ لیتے رہنا ازبس ضروری ہے تاکہ درست سمت کھڑا رہا جاسکے"۔
ہم نے کتابوں میں پڑھا بزرگوں سے سنا اور عملی زندگی میں دیکھا طبقے دو ہی ہیں ظالم اور مظلوم۔ ظالم کاساتھ دینے والے ساجھے دار طبقات ہمیشہ وقتی فوائد کو مدنظر رکھتے ہیں مظلوم کا ساتھ دینے سے اکثر لوگ گھبراتے ہیں۔ بہت ہوا تو یہ کچھ لوگوں کو صبروشکر کا درس دیتے دیکھائی دیتے ہیں
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نسل در نسل اس سوچ کے پرچارک ہیں جو بھی ہے حکم ربی ہے۔ سارے طبقات اسی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اپنے موقف کے حق میں ان کے پاس دلائل کے دفتر ہیں۔
بالکل ایسے جیسے 2018ء کے انتخابی نتائج کے بعد آئی ایس پی آر کے اس وقت کے سربراہ نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹیوٹر اکائونٹ سے ایک قرآنی آیت کا سہارا لے کر انتخابی نتائج کو "امر ربی" کے طور پر پیش کیاتھا۔
اس پر شور ہوا بہت لے دے ہوئی پھر موصوف ٹیوٹ ڈیلیٹ کرگئے لیکن اس ٹیوٹ نے جو شگاف ڈالنا تھا وہ ڈل گیا۔ میں کم از کم سیاسیات و صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں آزادانہ انتخابات کبھی نہیں ہوئے۔
ہاں کچھ دن ہمیں بھی یہ خوش فہمی رہی کہ 1970ء کے عام انتخابات آزادانہ تھے۔ پھر حقائق سے پردہ اٹھتا چلا گیا۔ پتہ چلا یحییٰ خان کی حکومت نے جنرل ایوب خان کی کنونشن لیگ کے ضبط شدہ فنڈز میں سے کچھ رقم کونسل مسلم لیگ، کنونشن لیگ اور قیوم لیگ نامی دھڑوں کے علاوہ جماعت اسلامی کی خدمت میں بھی پیش کی تھی۔
تب سارے تجزیہ کار ہرطرف "ہریالی" دیکھارہے تھے۔ کہا لکھا جارہا تھا کہ مسلم لیگ کے گروپس اور جماعت اسلامی رگید کے رکھ دیں گے ساری قوتوں کو۔
اس کہے لکھے کے پیچھے یکم مئی 1970ء کو جماعت اسلامی کے زیراہتمام منایا گیا یوم شوکت اسلام تھا۔ یہ لال لال لہرائے گا کے مقابلہ میں ایشیا کو "سبز و سبز" کرنے کا جہاد عظیم تھا۔ عالمی یوم مزدور کے مقابلہ میں یوم شوکت اسلام۔
برسوں ہم سوچتے رہے کہ شکاگو کے مزدوروں نے اسلام کے لئے ایسا کیا خطرہ پیدا کردیا تھا کہ عالمگیر انقلاب اسلامی کی داعی جماعت اسلامی کو یکم مئی کے دن یوم شوکتِ اسلام منانے کی ضرورت آن پڑی۔
جماعت اسلامی کو 1970ء کے عام انتخاباتمیں الحمدللہ امریکہ سے مالی مدد بھی ملی تھی۔ اہل کتاب میں رشتے بہت پرانے ہیں اسی لئے تو ہمزاد فقیر راحموں اکثر پوچھتے رہتے ہیں "شاہ جی جن اہل کتاب سے رشتہ داری ہوسکتی ہے ان سے دوستی کیوں نہیں؟"
جواب میں اسے میثاق مدینہ پڑھنے کے لئے کہہ کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہوں۔ اب بھلا کون توہین مذہب کے الزام میں بوڑھی ہڈیاں "تڑوائے"۔
اس جملہ معترضہ کی معذرت ہم اصل میں مزید دو باتیں کرنا چاہتے ہیں اس کالم میں۔ پہلی بات تو بالائی سطور میں عرض کردی دوسری یہ ہے کہ مظلوم کو صبروشکر کے وعظ کی نہیں حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مظلوم شخص طبقے یا طبقات کی حمایت نہ کی جاسکے تو پھر مشوروں والی چونچ کو بند رکھنا اور صبروشکر کی تبلیغ دونوں سے پرہیز ضروری ہے۔
اب آیئے مزید دو باتوں کی طرف۔ ان میں سے ایک پھر وہی غیرجانبداری ہے۔ سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان غیرجانبداری (نیوٹرل ہونا) کو جانور سے تشبیہہ دے چکے۔
ایک سے زائد بار وضاحت کے ساتھ کہہ چکے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ آجکل سوشل میڈیا پر دو لفظوں کو لے کر ہنگامے اٹھائے جارہے ہیں۔ عمران خان کا نیوٹرل کو جانور قرار دینا اور آصف علی زرداری کا "کسی" کو کھڈے لائن " لگادینے والی بات، دلچسپ بات یہ ہے کہ اداروں اور شخصیات کو جلسوں جلوسوں دنیا بھر میں مظاہروں اور تقاریر میں منہ بھر کے کوسنے والے انصافیوں کو بھی لفظ کھڈے لائن سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔
صرف انہیں ہی نہیں بلکہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بھی کہا کہ "تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں"۔ اور بھی کچھ کہا انہوں نے لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
ہاں جس بات کو وہ نظرانداز کرگئے وہ ماضی کے تمام انتخابات میں "انتخابی مینجمنٹ" کی وضاحت اور معذرت کے تقاضے ہیں۔ ساعت بھر کے لئے رکئے، ہم برسوں عشروں سے ان سطور میں یہی عرض کرتے آرہے ہیں کہ سکیورٹی سٹیٹ میں وضاحت اور معذرت کا چلن نہیں ہوتا بلکہ خواہشوں کے بے لگام گھوڑوں پر سواری کو مملکت کی سیاسی، نظریاتی اور تاریخی ضرورتوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بس یہی اختلافی نکتہ ہے۔ ہماری رائے میں مملکت کے مالک عوام ہیں فیصلہ سازی اور حق حکمرانی کا دائمی حق فقط ان کا ہے۔ کسی بھی قسم کی انتخابی مینجمنٹ یا نجی لشکر سازی اور وہ سارے امور بجالانا جو حدِ ادب سے تجاوز کے زمرے میں آتے ہوں درست تھے، ہیں نہ ہوں گے۔
عوام کو فیصلہ سازی اور حق حکمرانی سے محروم کرکے مینجمنٹ کے گھٹالوں پر پچھتر برسوں میں جو بھی کچھ کیا گیا سب ریکارڈ پر ہے۔ لوگ بات کرتے ہیں الفاظ کے چنائو میں احتیاط ملحوظ خاطر رکھتے ہیں لیکن تجربوں سے تخلیق ہوئی نسل کے سامنے کوئی حدِ ادب ہے نہ مروت۔ سو جو ہورہا ہے اس سے پیدا ہونے والے ابتری سبھی کو دن میں تارے دیکھائے گی۔
اس سارے مسئلہ بلکہ مسائل کا حل فقط دستور کی بالادستی کے احترام اور طے شدہ حدود میں رہ کر ہر کسی کا اپنے کردار کی ادائیگی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ایک جھوٹ کو سنبھالنے کیلئے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جاتے ہیں یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ طالب علم پنجاب کے سابق گورنر جنرل (ر) خالد مقبول کی اس بات سے متفق نہیں کہ "کچھ لوگ اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ فوج پر تنقید کرنے سے مقبولیت ملتی ہے"۔ اصل سوال یہ ہے کہ لوگ یا سیاستدان فوج پر تنقید کرتے کیوں ہیں؟
ایک سادہ وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ سمھجتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابی مینجمنٹ کے پیچھے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ یہ رائے رکھنے والے 1970ء کے انتخابات سے 2018ء کے انتخابات کے سفر میں ہر بار ہوئی انتخابی مینجمنٹ کے نتائج سامنے رکھ کر بحث کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں غیرمحسوس حاکمیت، براہ راست چاربار کی حاکمیت اور ساجھے داری کی حاکمیت تینوں نے حقیقی جمہوریت کی راہ کھوٹی کی۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ راہ کھوٹی کرنے کا سامان کرنے والوں کی سوچ یہ ہے کہ صرف اور صرف وہی مملکت کے درست سمت سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں یا یہ کہ درست سمت کے سفر کو جاری رکھواسکتے ہیں۔
ایک سے زائد اعتراضات ہیں۔ شکوے ہیں شکایات ہیں، ملاکھڑا مقصود ہرگز نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اب طور طریقے سبھی کو بدلنے ہوں گے۔ دستیاب سیاسی قیادتوں کو بھی اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سول بیوروکریسی، عدلیہ، سرمایہ دار طبقات بلکہ مذہب و عقائد کے نام پر سیاست کا چولہا جلانے والوں کو بھی۔
اس سے قبل ضروری ہے کہ پچھتر برسوں کےسفر کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ تجربات کے نتائج کا بھی ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرلیا جائے۔
مثال کے طور پر کسی کی ناراضگی یا پھبتی کسی جانے کے ڈر سے بے پروا ہوکر ہم یہ عرض کرسکتے ہیں کہ "بہت اچھا لگا تھا جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ "40سالہ افغان پالیسی نے ملک کو کچھ نہیں دیا ریویو کی ضرورت ہے"۔ سوال یہ ہے کہ رویو کیوں نہ ہوپایا افغان پالیسی کی بند گلی میں دوبارہ کس نے پھنسوادیا؟
یہ عرض کرتا چلوں کہ اس سوال کا جواب نہیں ملنے والا کیونکہ ریاست سوالوں کا جواب دینا توہین سمجھتی ہے۔ حالانکہ سوالوں کا جواب دینے سے توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔
کم از کم مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ صرف فوج ہی نہیں سیاسی عمل، جمہوریت، نظام اور سیاسی قیادتوں کو بھی متنازعہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
تلخ نوائی کی پیشگی معذرت، سیاستدانوں اور لُولے لنگڑے طبقاتی جمہوری نظام کو ہر دستیاب گالی دلواکر دیکھ لیا گیا کہ کیا فائدہ ہوا؟
ظاہری صورت یہ ہے کہ نقصان ہی نقصان ہوا۔ اس لئے ضروری ہے کہ احترام، شائستگی، مکالمے، برداشت اور مفاہمت کو رواج دیا جائے بصورت دیگر
"داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں"۔