Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. America Mukhalif Bhujia Ka Karobar

America Mukhalif Bhujia Ka Karobar

امریکہ مخالف ’’بُھجیا‘‘ کا کاروبار

جناب عمران خان کے جمعرات کی شام ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کے بعد حب الوطنی کے نئے معیار طے ہورہے ہیں۔ اس خطاب بارے انہوں نے کہا "یہ ریکارڈ شدہ تقریر نہیں لائیو خطاب ہے"۔ ہم نے مان لیا جیسے کبھی جنرل ضیاء الحق کی اقوام متحدہ میں تقریر سے قبل نشر ہوئی تلاوت قران کے حوالے سے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ تلاوت کلام پاک اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کی شرط تھی "مردمومن و مرد حق" کی۔

خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے خطاب ریکارڈ تھا یا لائیو۔ اصل بات یہ ہے کہ اس تقریر میں وہی سب کچھ تھا جو انہوں نے 27مارچ کی شام پریڈ گرائونڈ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ پریڈ گرائونڈ کی تقریر اور قوم سے خطاب کا نچوڑ یہ ہے کہ حب الوطنی اور غداری کا معیار اب یہ ہوگا کہ جو امریکہ کی درشنی فیشنی مخالف نئی تحریک کا حامی ہوگا وہ محب وطن اور جو ان یعنی امریکہ مخالف تحریک کے قائد کا مخالف و ناقد ہوگا وہ ملک دشمن ٹھہرے گا۔

اس تقسیم کی بنیاد انہوں نے یہ کہہ کر رکھی ہے کہ میرے خلاف امریکہ نے سازش کی ہے اور متحدہ اپوزیشن اس سازش کا حصہ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں انہیں سب سے زیادہ ووٹ ملے لیکن اگر ہم 1970ء سے 1997ء اور پھر 2008ء کے انتخابی نتائج پر انجمن متاثرین منصورہ شریف کے ہم خیال سکہ بند صحافیوں کا سا تجزیہ کریں تو 2018ء کے انتخابات میں اس متحدہ اپوزیشن کے مجموعی ووٹ ان کی جماعت سے زیادہ ہیں۔ کافرومشرک، غدار اور طرح طرح کے نعروں پر اس ملک میں کیا کیا نہیں ہوا اب ایک "گناہ" اور سہی۔

عالی جناب کی تقریر ہوگئی اس میں 25گھنٹے کی تاخیر کیوں ہوئی اور 70منٹ کی تقریر تقریباً 45منٹ تک محدود کیوں ہوئی یہ ایک سوال ہے امید ہے کہ خان صاحب کسی وقت اس سوال کا جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔

اتوار کو اپوزیشن کی ان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہونا ہے۔ ویسے فیصلہ جمعرات کو ہی ہوگیا تھا ان کے منحرف ارکان ایوان میں اپوزیشن کے ساتھ نہیں تھے پھر بھی اپوزیشن ارکان کی تعداد 174 تھی۔ بی اے پی کی خاتون رکن کے ایوان میں پہنچ جانے کے بعد یہ 175 ہوگئی۔ اتوار کو اپوزیشن نے 177 ارکان کی اکثریت ثابت کرنی ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشید کے اترے چہرے اور لڑکھڑاتی زبان مستقبل بارے کچھ کچھ سمجھارہی ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل مکرر عرض کردوں کہ سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اب بھی یہی رائے ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کی بجائے متحدہ اپوزیشن آئندہ عام انتخابات کے لئے تیاریاں کرتی تو زیادہ اچھا ہوتا۔ 2018ء کے انتخابی نتائج پر 2013ء کے انتخابی نتائج جیسے الزامات تھے لیکن اس کیانی، افتخار چودھری اور آراوز برانڈ انتخابی نتائج والی حکومت کو پانچ سال پورا کروا دیئے گئے اب بھی اگر اسی وسعت قلبی کا مظاہرہ ہوتا تو اچھا تھا۔

ہم آگے بڑھتے ہیں۔ وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں خود کو دی گئی امریکی دھمکی اور سازش کا ذکر کیا۔ اپوزیشن کو موردالزام ٹھہرایا۔ ان کے وزراء دھمکی آمیز خط اور سازش کا سودا بیچ رہے ہیں لیکن جمعرات کو نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں "سفارتی کیبل" کا تجزیہ ہوا مگر اس میں یہ پوائنٹ کسی بھی طرح زیربحث نہیں آیا کہ امریکہ عمران خان کی حکومت کا تخت الٹوانا چاہتا ہے اور اس سازش میں اپوزیشن شامل ہے۔

نہ اس بات کا وزیراعظم نے نیشنل سکیورٹی کونسل میں کوئی ثبوت پیش کیا کہ اپوزیشن کی تحریک بیرونی فنڈنگ کی مرہون منت ہے۔ اجلاس میں سفارتی کیبل میں اٹھائے گئے نکات پر غور ہوا اور طے ہوا یہ لب و لہجہ درست نہیں جو ایک امریکی آفیشل سے "منسوب" ہے اس پر احتجاج کیا جائے گا۔ احتجاج سفارتی انداز میں ہوچکا۔ امریکہ کا جواب بھی آگیا وہ ایسی کسی ملاقات اور گفتگو سے انکاری ہے۔ آپ کہہ لیجئے "وہ ڈر" گیا مکر گیا، سازش تو ہوئی ہے

اب اگر سازشوں کا سودا ہی فروخت کرنا ہے تو بتلادیجئے کہ 2014ء کا دھرنا بھی کسی عالمی سازش کا حصہ تھا؟ تب تو اردگان کے پارلیمنٹ سے خطاب کا بائیکاٹ بھی کیا تھا تحریک انصاف نے۔

آزاد خارجہ پالیسی والی بڑھک پر یقین کرلیتے اگر یہ معلوم نہ ہوتا کہ امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کا اعلان اور اس اعلان کو قومی غیرت کا نشان بنانے کی حکمت عملی دونوں عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ہیں کیونکہ عسکری حکام قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں سوال کے جواب میں کہہ چکے کہ امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں انکار کیسا۔

اڈے مانگنے اور انکار پر وزیراعظم کے موقف کو سمجھنا ہے تو ڈبلیو ایچ او کے نمائندے سے ان کی اس گفتگو کے اس حصہ کو تلاش کرکے سن لیجئے سوال کیا تھا اور جواب کیا۔ امریکی سازش کے انکشاف کے بعد امریکہ کی درشنی مخالفت کی ہلکی پھلکی طغیانی آئی ہوئی ہے۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ جو تحریک انصاف کے اتحادی ہیں، امریکی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔

امید ہے کہ وزیراعظم رخصتی سے قبل اپنی نگرانی میں امریکی سفیر کو طیارے میں بیٹھاکر پاکستان بدر کریں گے تاکہ اس مذہبی جماعت کی امریکہ مخالف طغیانی کے آگے بندھ باندھا جاسکے ورنہ جوبائیڈن کو ایئریٹریا میں پناہ کے لئے درخواست دینا پڑے گی۔

مکرر عرض ہے کہ "سفارتی کیبل" کو خط قرار دینے کی ضد سیاسی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں امریکہ مخالفت کی "بُھجیا" ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے کچھ حصوں کے لئے تو امریکہ کی مخالفت ہاجمولہ سے کم نہیں ہے۔ مبینہ دھمکی آمیز خط پر وزارت خارجہ کے چند سابق سیکرٹری صاحبان اور سابق سفارتکاروں کی رائے پچھلے چند دنوں سے اخبارات میں شائع اور چینلوں پر نشر ہورہی ہے۔ اس پر مزید سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔

حکومتی زعما ایک غلط بیانی کررہے کہ وہ یہ کہ اپوزیشن نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اس کا قصہ بھی یہ ہے کہ جمعرات کو جب ایک گھنٹے کی تاخیر سے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو پارلیمانی امور کے مشیر بابر اعوان نے سپیکر سے کہا حکومت 6بجے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس بلارہی ہے جس میں اپوزیشن کو دھمکی آمیز خط پر بریفنگ دی جائے گی۔

اس پر اپوزیشن جماعتوں نے موقف اختیار کیا کہ ٹی وی چینلوں پر یہ خبر نشر ہوچکی ہے کہ وزیراعظم حسب دستور پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے اس لئے متحدہ اپوزیشن بھی اس اجلاس میں نہیں بیٹھے گی اور یہ کہ 5بجے قومی اسملی کا اجلاس شروع ہوا ہے۔ 6بجے کمیٹی کااجلاس بلانا، اس اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔

کالم کے آخری حصے میں اپنے پڑھنے والوں کو اس امر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وفاقی حکومت ایمرجنسی کے نفاذ اور سندھ میں گورنر راج کے لئے بالکل سنجیدہ تھی، دونوں کے لئے مسودے تیار کرلئے گئے تھے بلکہ ایک اور آرڈیننس کا مسودہ بھی تیار تھا کہ اگر عدم اعتماد پر رائے شماری سے قبل سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لئے دائر صدارتی ریفرنس کا فیصلہ آگیا اور وہ حکومت کی منشا کے مطابق نہ ہوا تو آرڈیننس کے ذریعے پارٹی سربراہ کو یہ حق دے دیا جائے گا کہ وہ منحرف ارکان کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے روکنے کیلئے سپیکر کو درخواست دے اور سپیکر ان کی نااہلی کا ریفرنس فوراً الیکشن کمیشن کو بھجوادے۔

ان تینوں آرڈیننسوں کے مسودوں کی اطلاع پر دو "سیانوں " نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے جو خلاف دستور ہواور اس سے بحران پیدا ہو، وزیراعظم نے مشورہ مان کر اچھا کیا ورنہ 4رکنی کچن کیبنٹ کے انقلابی مشورے پر عمل سے تصادم کا راستہ کھل سکتا تھا۔

ان چار میں سے کم از کم 2 "کچن کیبنٹ" اسسٹنٹ اس وقت بھی اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں میں ہیں۔

Check Also

Riyasat Ba Muqabla Imran Khan Aur Do Number Inqelabi

By Nusrat Javed