Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Aik Mulaqat Aur Poori Baat

Aik Mulaqat Aur Poori Baat

ایک ملاقات اور پوری بات

ان سطور میں بعض پڑھنے والوں، شناسائوں اور سوشل میڈیا کے تعلق داروں کے شکوئوں شکایات پر اکثر بات کرتا رہتا ہوں۔ گزشتہ شب ہمارے محنت کش نوجوان دوست رانا تنویر عالمگیر فقیر راحموں کی دعوت پر ملنے چلے آئے۔ دو اڑھائی گھنٹے کی اس محفل میں دو باتوں پر زیادہ بات ہوئی اولاً قیام پاکستان، ثانیاً ڈیلروں (پراپرٹی ڈیلرز دوسرے نہیں) کے رویوں اور طریقہ واردات پر۔

البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھے بھلے مانس اور وارداتیے زندگی کے ہر شعبہ میں ہوتے ہیں۔ بس بدنام صرف سیاستدان ہیں۔ جس کا جی چاہتا ہے ان کی کلاس لینے لگتا ہے حالانکہ اچھے بھلے مانسوں اور وارداتیوں والا اصول ہمیں یہاں بھی اپنانا چاہیے۔

خیر ہم آگے بڑھتے ہیں رانا تنویر عالمگیر برسوں سے ہمارے دوست ہیں۔ ایک زمانے میں بڑے دین دار تھے۔ پھر مولوی بیزار ہوئے تو کتاب لکھ ماری ایک نہیں دو کتابیں مولوی صاحبان ان پر ناراض ہوئے اور خوب ہوئے۔ ایک کتاب انہوں نے فیس بکی دانشوروں پر لکھی۔ آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور شارٹ موویز بناتے ہیں۔

چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے بڑے شہروں کی طرف رخ کرنے والوں کا ایک مسئلہ مشترکہ ہوتا ہے وہ یہ کہ نئے شہر میں قدم جم جائیں۔ کام مل جائے۔ کرائے کی چھیت میسر ہو۔ شناخت بن جائے۔ ظاہر ہے اس کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے۔ تقریباً سبھی مضافاتیئے محنت جی جان سے بلکہ جان توڑ کر کرتے ہیں۔

خود ہم جب آج سے 38برس قبل وارد لاہور ہوئے تھے تو دو جوڑے کپڑوں اور سو ڈیڑھ سو کتابیں کل سرمایہ تھا۔ صفدر بلوچ کا بھلا ہو کہ اس کی وجہ سے لاہور آمد کے دو تین گھنٹے بعد ایک ہفت روزہ کی ایڈیٹری مل گئی۔

(اس ملازمت کی تفصیل قبل ازیں عرض کرچکا) صفدر بلوچ آج کل خانسر ضلع بھکر میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کررہے ہیں گاہے گاہے رابطہ ہوتا ہے۔

مضافات کے شہروں قصبوں اور دیہاتوں سے بڑے شہروں کا رخ کرنے والے جتنی محنت کرتے ہیں اتنا پھل بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ محنت کے بغیر کچھ نہیں ملتا، وصول ہوتا۔ ہاں ایسے دوچار یا تعداد میں کچھ زیادہ افراد سے بھی شناسائی ہے جنہوں نے نئے بڑے شہر میں محنت کے "ساتھ ساتھ" کچھ عشق کیا اور کچھ ہاتھ پائوں مارے مالدار بیوہ سے شادی کی اور زندگی پالی۔ یہ بھی کوئی بری بات نہیں بس اگر وہ یہ تاثر نہ دیا کریں کہ دولت اور بیگم وہ مضافات سے ساتھ لائے تھے یا بیگم کے ابا کی خواہش تھی گھر داماں ہوں۔

ارے معاف کیجئے بات کدھر سے کدھر نکل لی۔ ہم تو گزشتہ شب کی ایک ملاقات پر گفتگو کرنا چاہتے تھے جو فقیر ر احموں کی مہربانی سے ہمارے دوست رانا تنویر عالمگیر سے ہوئی۔ رانا نے ایک زمانہ میں جہانیاں کے قریب سکول بھی بنایا تھا اور اس کے پرنسپل بھی ہوئے۔ سکول اچھا خاصا چل رہا تھا لیکن رانا عمومی لچھنوں اور استحصال کی "بیماری" سے محفوظ تھا اس لئے شاگردوں کے والدین کی کھال نہ اتارسکا ورنہ سکول چلتا رہتا۔

اب ایسے تو نہیں چل سکتا سکول کہ غریب بچوں کو مفت پڑھائو۔ دکھی والدین کی گفتگو سن کر طالب علم کو یونیفارم اور کتابیں بھی لے دو، اساتذہ کی تنخواہیں پوری کرنے کے لئے پیسے گھر سے لائو بس ایک دن سکول بند کرنا پڑا نئی نسل کو پڑھانے لکھانے کے شوق کو اس نے "تین خالص" سلام کئے اور لکھنے پڑھنے کی دنیا میں اتر آیا۔

عشرہ سوا عشرے سے اسی میدان میں موجود ہے۔ آجکل جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کیا شارٹ فلمیں بناتا ہے۔ ایک دو ریلیز ہوچکیں۔ ایک کی ایڈیٹنگ کررہا ہے ایک کی عکاسی۔ گزشتہ شب کی طویل نشست خوب رہی ڈھیروں باتیں ہوئیں۔

ہم مزید آگے بڑھتے ہوئے کالم کی ابتدائی سطور والی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اکثر لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ تحریر نویس غیرجانبدار نہیں ہے پیپلزپارٹی کی حمایت کرتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن کی تین نسلیں پیپلزپارٹی میں رہیں اور وہ تحریک انصاف کے فدائی اور عمران خان کے ٹائیگر ہیں۔

مجھ ایسے قلم مزدور کو روزانہ کی بنیاد پر پسندوناپسند کے باوجود بہت کچھ پڑھنا پڑتا ہے۔ کبھی یہ نہیں دیکھا کہ ہمیں غیرجانبداری کا مشورہ دینے والوں میں سے کسی نے تحریک انصاف کے حامی صحافی یا کالم نگار سے یہ کہا ہو کہ آپ کو پارٹی نہیں بننا چاہیے صحافی تو غیرجانبدار ہوتا ہے۔

عین ممکن ہے وہ جناب عمران خان کی جانب سے غیرجانبدار (نیوٹرل) تو جانور ہوتا ہے والی بات سے قبل یہ مشورہ دیتے ہوں۔ اب چونکہ ان کے قائد محترم نے فرمادیا ہے کہ غیرجانبدار تو جانور ہوتا ہے اس لئے وہ خان، تحریک انصاف اور خان صاحب کی 26سالہ مستقل تقریر کے ناقدین کو غیرجانبدار یعنی جانور دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے حامیوں خصوصاً صحافیوں، کالم نگاروں، اینکروں اور یوٹیوبرز کی جانبداری کو انقلاب اور زیرتعمیر ریاست مدینہ کے لئے ضروری سمجھتے ہوں۔

اچھا ویسے ہمیں یعنی ہم سب کو اپنی اپنی عام زندگی میں ناقدین اچھے نہیں لگتے۔ لیڈوں کے ناقد تو ہمیں زہر لگتے ہیں۔ مختلف الخیال لیڈروں کے حامیوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنے محبوب رہنما پر تنقید کرنے والے کو زندہ ہی گاڑدیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ خوب گالم گلوچ کرو اس گالم گلوچ پر اعتراض کے جواب میں 1990ء کی دہائی کی سیاست یاد کرانے لگتے ہیں۔

وقت اور زندگی آگے بڑھتے ہیں۔ ماضی دو کاموں کے لئے ہوتاہے اس سے سبق حاصل کیجئے اور رہنمائی لیجئے۔ جو لوگ ماضی میں جا بسنے کے آرزو مند بلکہ اس کے لئے ہاتھ پائوں اور زبان چلاتے ہیں وہ کہیں کے نہیں رہتے۔

سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ وقت اور زندگی کے آگے بڑھنے کے عمل کی راہ میں حائل ہونے والے ناکام رہتے ہیں۔ میرے خیال میں کسی سیاستدان یا مذہبی رہنماء کے لئے پسندیدگی یا عدم پسندیدگی دونوں طرح کے جذبات غلط ہیں جرم نہ کفر۔ صریحاً غلط یہ ہے کہ میں یا آپ کسی شخص کو ناگزیر سمجھ لیں۔

اچھا یہ درست ہے تو پھر ہم خود ناگزیر بننے کے لئے ہاتھ پائوں کیوں نہیں مارتے؟ بھیا جی! ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔

آج جس وقت یہ سطور رقم کررہا ہوں 17اگست کی دوپہر ہے۔ آج ہی کے دن 1988ء میں ایک ایسے شخص کا اقتدار اور دبدبہ سی ون تھرٹی کے ساتھ فضا میں ہی ختم ہوگیا جو اس ملک پر گیارہ برس ایک ماہ اور بارہ دن قابض رہا تھا۔

اس کی دو بڑھکیں کبھی نہیں بھولوں گا۔ پہلی یہ کہ دستور کیا ہے، چند کاغذوں کا پلندہ، دوسری یہ کہ سیاستدانوں کو ہڈی ڈںالوں کا دم ہلاتے ہوئے میرے پیچھے دوڑے آئیں گے۔

آج کل اس کا اپنا صاحبزادہ ایک خالص ذاتی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ ضیا گروپ کا مالک و مختار ہے۔ یہ قدرت کا انتقام ہے یا وقت کا فیصلہ آپ کیجئے۔

مجھے اس کی تیسری بڑھک بھی یاد آرہی ہے بہالپور میں ایک دن کہہ رہا تھا "میرا بس چلے تو میں اس ملک کے سارے سرخوں کو جمع کر کے ان پر ٹینک چڑھادوں"۔

گیارہ سال ایک ماہ بارہ دن اقتدار پر قابض رہنے والے اس تیسرے فوجی آمر کے دور میں جمہوریت پسندوں پر جو بیتی وہ ہماری تاریخ کے سیاہ ابواب ہیں۔ جمہوریت پسند پھانسیاں چڑھے۔ انہوں نے کوڑے کھائے۔ قلعے اور جیلیں کاٹیں مگر ثابت قدر رہے۔

معاف کیجئے اصل بات پھر رہ گئی مکرر عرض کئے دیتا ہوں مذہب، عقیدے اور سیاسی پسندوناپسند کے حوالے سے جو آزادی اور حق آپ اپنے لئے طلب کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی دیجئے بصورت دیگر آپ شرف انسانی اور تاریخ کے مجرم قرارپائیں گے۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez