1958 Se 2018 Tak
1958ء سے 2018ء تک
بڑے دنوں کے بعد ایک بار پھر اس مشکل کا سامنا ہے کہ کیا لکھا جائے۔ مشکل کیوں ہے، اس کی وضاحت کئے دیتا ہوں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اڑھائی تین ماہ قبل ان سطور میں عرض کیا تھا کہ "تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا دستوری اور جمہوری حق ہے۔ اس کی کامیابی کے آثار بھی واضح ہیں لیکن خدشہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے ان قوتوں کو محفوظ راستہ مل جائے گا جو اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُنہیں محفوظ راستہ کسی بھی قیمت پر نہ ملنے پائے اور یہ نہ یہ تاثر ابھرے کہ راستہ دیا گیاہے"۔
سیاسیات اور تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر میں اب بھی جناب عمران خان کے دعوئوں، الزامات اور بڑھکوں کے ساتھ ان کے محبین کی زبان دانیوں کو درست نہیں سمجھتا۔ نہ اس تاثر کو حرف آخر کہ ایک وہی تنہا ایماندار، محب وطن، قانون پسند شخص ہیں۔ ان کے حامی خالص محب وطن، مخالف سیاستدان چور اور ان کے حامی ذہنی غلام۔ یہ باتیں کسی سیاسی نظریہ کی دین نہیں بلکہ ان قوتوں کے پروپیگنڈے کے لقمے ہیں جنہیں پچھلے پچاس سالوں سے من پسند لوگوں کے دہنوں میں ڈالا گیا اور وہ چبارہے ہیں۔
اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں ہمیشہ یہ عرض کرتا رہا کہ سیاستدانوں کے احتساب کا فورم انتخابی عمل ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انتخابی عمل سے احتساب نہیں ہوتا بلکہ غلام ذہن پھر سے لٹیروں کو منتخب کرلیتے ہیں وہ دو جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایک یہ کہ عوام احتساب نہیں کرسکتے اس کے لئے "پاکیزہ" قیادت کی ضرورت ہے۔
"انہوں " نے پہلے مارشل لاء کے بعد سے 2018ء کے الیکشن تک جتنے بھی تجربے کئے ان تجربوں کا خام مال انہی جماعتوں سے لیا گیا جنہیں چوروں کا اکٹھ قرار دیا گیا۔ پہلے فوجی آمر ایوب خان کی کنونشن لیگ میں کیا کعبہ کی کڑیاں بھرتی کی گئی تھیں؟
1958ء کا مارشل لاء لگانے والے ایوب خان کا دعویٰ تھا ملک تباہی کے کنارے پر کھڑا تھا۔ مسلح افواج نے جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ملک کے نظام کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا۔ مارشل لاء ملک کو بدعنوان سیاستدانوں سے بچانے کے لئے لگایا گیا ہے۔
پھر کیا ہوا انہوں نے اگلے مرحلہ پر جو کنونشن لیگ بنائی اس میں دودھ کے دھلے شامل ہوئے؟ فرشتے یا وہی سیاستدان جو قبل ازیں مختلف جماعتوں میں تھے؟
دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے گو اپنی سیاسی جماعت بنانے کا نہیں سوچا مگر انہوں نے 1970ء کے انتخابی عمل میں قیوم لیگ، کنونشن لیگ اور جماعت اسلامی کے لئے وسائل اور مدد فراہم کی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مقابلہ میں جماعت اسلامی اور نظام اسلام پارٹی کی سرپرستی کی۔
تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے ابتداً 90دن میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا پھر وہ اس سے پیچھے ہٹے اور غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات کروائے۔
ضیاء دور کے ان غیرجماعتی انتخابات کے نتائج کیا رہے اس کے لئے آپ اخبارات کی فائلیں دیکھیں جو آپ کو بتائیں گی کہ پیپلزپارٹی کے عوام دوست امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے لیکن بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات کے مرحلہ میں عسکری حکام اور سول انتظامیہ نے تاریخی خدمات سرانجام دیتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو "صالح" قیادت فراہم کی۔
موصوف (تیسرے فوجی آمر) نے پہلے مارشل لاء کے تحت وفاقی مجلس شوریٰ اور صوبائی کونسلیں بنائیں۔ پھر 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کروائے۔ آپ اس کی وفاقی مجلس شوریٰ اور صوبائی کونسلوں کے ارکان کے تعارف کے لئے تاریخ کے اوراق الٹیئے۔ خواجہ محمد صفدر مجلس شوریٰ کے سپیکر تھے ان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔
مارشل لاء کو جائز بلکہ قومی امنگوں کے مطابق قرار دینے والے پرانے نئے سیاسی خاندان اس مجلس شوریٰ اور صوبائی کونسلوں میں دہلی دربار میں کرسی حاصل کرنے والوں کی طرح بھاگ بھاگ کر شامل ہوئے تھے۔
اپوزیشن کے اتحاد ایم آر ڈی نے 1985ء کے غیرجماعتی قومی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، بایئکاٹ کا فیصلہ غلط تھا۔ ایم آر ڈی کی جانب سے اگر انتخابی عمل میں شرکت کا اعلان کیا جاتا تو فوجی آمر نے میدان چھوڑ کر بھاگ جانا تھا۔
بائیکاٹ کو سیاسی غلطی خود محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی بعد میں تسلیم کیا لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ سیاسی کارکنوں کی جگہ نالی موری کے ٹھیکیدار اور سیاسی تاجروں نے لے لی تھی۔
چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بلدیاتی انتخابات کرائے۔ تیسرے فوجی آمر کی پیروی میں صدارتی ریفرنڈم کرواکر صدر بن گئے پھر 2002ء میں عام انتخابات کروائے۔ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ہم خیال (اس کے سربراہ میاں محمد اظہر تھے وہی میاں محمد اظہر جو حماد اظہر کے والد بزرگوار ہیں) کو پاکستان مسلم لیگ ق کا نام دیا گیا۔
بھان متی کے اس کنبے میں کون کون تھا۔ فاروق لغاری اپنی پوری جماعت سمیت اس کا حصہ بنے۔ میر جبل خان ظفر اللہ جمالی، چودھری برادران، یہ چند نام ہیں، ق لیگ کے لئے مسلم لیگ (ن) توڑی گئی۔
انتخابی نتائج توقعات کے مطابق نہ تھے پھر پیپلزپارٹی توڑی گئی رائو سکندر اقبال کی قیادت میں پی پی پی پارلیمنٹیرین ایجاد ہوئی۔ پی پی پی کے تقریباً 20ارکان اس نئی جماعت میں چلے گئے۔ پھر بھی حکومت سازی کے لئے دہہلوی سرکار کو، انجمن سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق کے ووٹ کی ضرورت پڑی تب کہیں ظفراللہ جمالی وزیراعظم بن سکے۔
یہ وہی مشہور زمانہ انتخابات تھے جن کے انعقاد سے قبل ملا ملٹری الائنس معاف کیجئے گا متحدہ مجلس عمل کی تخلیق میجر جنرل احتشام ضمیر کے "کمرے" میں عمل میں لائی گئی۔ اس وقت کے صوبہ سرحد کے علاوہ بلوچستان کے پشتون علاقوں سے اس ملا ملٹری الائنس کو کامیاب کروانے کے لئے جنرل مشرف کی حکومت نے پوری ریاستی طاقت جھونک دی تھی۔
مشرف لگ بھگ 10سال اس ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض رہے۔ ملا ملٹری الائنس نے انہیں دوسری بار صدر منتخب کروانے میں جو کردار ادا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 2011ء میں عمران خان کی تحریک انصاف کا نیا جنم مینار پاکستان پر ہوا۔ نئے جنم میں جنرل شجاع پاشا کا وہی کردار تھا جو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تخلیق میں ڈاکٹر راشد لطیف کا۔
ڈاکٹر راشد لطیف نے انسانیت کے لئے خدمات سرانجام دیں مگر پاشا جی نے دو جماعتی سیاسی نظام (حالانکہ یہ پھبتی غلط تھی) میں تیسری پارٹی لانچ کرنے کا تجربہ کیا یہ پارٹی ان خوابوں اور پروپیگنڈے کی تعبیر تھی کہ " سب چور " ہیں۔ "ہم" نہ ہوتے تو ملک شام عراق اور لبنان بن گیا ہوتا۔
2013ء کے انتخابات سے قبل کے چند واقعات اور باتوں کی وجہ سے پاشا رجیم پارٹی کی جگہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار مل گیا۔ عمران خان لانگ مارچ پر نکل کھڑے ہوئے، پھر 126 دن کا دھرنا دے دیا۔
اب غور کیجئے 2011ء سے 2018ء کے انتخابات سے قبل تک کون کون کس جماعت سے ہانک کر تحریک انصاف میں لایا گیا۔ پنجاب میں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی سمجھنے والے طبقات، لشکر پسند خاندان، زرداری کی (ن) لیگ سے مفاہمت کو مولا جٹ کے انتقام سے غداری تعبیر کرنے والے وہ خاندان جو پیپلزپارٹی سے پی ٹی آئی میں لائے گئے۔
یعنی چوروں لٹیروں سے ملک کو نجات دلوانے کے لئے اِدھر اُدھر سے لوگ تحریک انصاف میں ہانکے گئے۔ کچھ وہ تھے جو نوازشریف اور ان کی جماعت کو سیاسی مخالف کے طور پر نہیں بلکہ ذاتی دشمن کے طور پر دیکھتے تھے اور وہ روایتی مڈل کلاس جو ہمیشہ منہ بھر کے جمہوری عمل کو گالیاں دیتی تھی، تبدیلی لانے کے لئے بنائی گئی پارٹی کا کل اثاثہ یہ طبقات تھے۔ ایک طبقہ اور ہے وہ چھائونی گرلز اور بوائز کا ہے جو خاندانی طور پر سیاسی عمل کا مخالف تھا اس طبقے کے خیال میں درست فیصلے صرف ان کے "والدین " کرتے ہیں یا ان کی پسند کے لوگ۔ 2018ء کے انتخابی نتائج منظم جھرلو کا نتیجہ تھے۔ آپ صرف قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے فراڈ کا اندازہ کرلیجئے۔
جھنگ سے سید فیصل صالح حیات ہارے چند سو ووٹوں سے لیکن ان کے 10ہزار سے زائد ووٹ مسترد کئے گئے۔ بدین سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کامیاب صرف تین چار سو ووٹوں سے ہوئیں مگر ان کے مدمقابل امیدوار کے 11ہزار سے زائد ووٹ مسترد کئے گئے۔ یہ تھے تبدیلی برانڈ انتخابات۔
مکرر عرض کردوں کہ 1958ء سے 2018ء تک تجربوں کی چاند ماری کرنے والوں کو محفوظ راستہ نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ راستہ دینے والوں کے مجاہدین اور خود ان کے موقف سے تحریر نویس کو اتفاق نہیں۔ اختلافی نکات اگلے کالم میں عرض کروں گا۔