Shakhsiyat Ki Tameer
شخصیت کی تعمیر
عمر اور ایان دو جڑواں بھائی تھے دونوں شکل و صورت میں بھی ایک ہی طرح سے نظر آتے تھے۔ لیکن ان کی طبیعت ایک دوسرے سے بہت مختلف تھی۔ اگر ایک کو بریانی پسند ہے تو دوسرے کو دال چاول، ایک کو گھومنا پھرنا پسند ہے تو دوسرے کو اکیلے بیٹھ کر کہانیاں پڑھنا۔
عمر ذرا حساس طبیعت کا مالک تھا۔ اس کی امی جان سارا بیگم کا سارا دھیان عمر کی طرف لگا رہتا "عمر یہ کھالو، عمر وہ کھالو" کے الفاظ عمر کے کانوں میں گوجتے رہتے۔ اگر عمر کسی چیز کو کھانے سے انکار کر دیتا تو سارا بیگم خوب غصہ کرتیں اور اسے کھانا کھانے پر مجبور کرتیں۔ مسلسل دباؤ اور اصرار سے عمر مزید چڑچڑا ہوگیا۔ جب بھی اسے کھانا کھانے کا کہا جاتا وہ پلیٹ کو ایک طرف دھکیل دیتا اور ماں سے کہہ دیتا مجھے بھوک نہیں ہے۔
دوسری طرف ایان تھا خاموش اور ہر چیز کو آسانی سے قبول کرلینے والا۔ اسے جو بھی کھانے کو دیا جاتا وہ چپ چاپ کھالیتا۔ سارا بیگم کو اس کی فکر نہیں کرنا پڑتی تھی۔ سارا اکثر رشتہ داروں اور دوستوں کے سامنے ایان کی تعریفیں کرتیں "دیکھو ہمارا ایان کتنا اچھا بچہ ہے سارے کام وقت پہ کرتا ہے کھانا کھانے میں کبھی تنگ نہیں کرتا سکول، ٹیوشن بھی خوشی خوشی چلا جاتا ہے کاش عمر بھی اس جیسا ہوتا" یہ باتیں عمر کے دل پر گہرا اثر کرتی تھیں۔ وہ محسوس کرتا کہ اس کی امی اسکو دوسروں کے سامنے نیچا دکھا رہی ہیں اس احساس نے اسے مزید ضدی اور بد مزاج بنا دیا۔
اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ واقعی ایک برا بچہ ہے یہی سوچ اسے مزید بڑبولا اور ضدی بناتی گئ۔ جب بھی مہمان آتے سارا بیگم عمر کی بدتمیزی کا ذکر کرتیں اور ایان کو ہمیشہ "اچھا بچہ" کہا کرتیں "میرے ایان نے کمرہ صاف کیا، میرے ایان نے ہوم ورک کرلیا، واہ میرا ایان کتنا فرمانبردار ہے" یہ سب سن کر ایان مزید اچھے کام کرنے لگتا اور اپنی امی جان کا ہر حکم بلا چون و چراں مان لیتا خواہ اسے پسند ہو یا نہ ہو۔ آہستہ آہستہ، ایان واقعی ایک فرمانبردار اور سلجھا ہوا بچہ بن گیا۔
وقت گزرتا گیا۔ عمر بڑا ہو کر ایک باغی نوجوان بن گیا۔ اس کا چڑچڑا پن اس کی شخصیت بن چکا تھا۔ وہ کسی کی بات آسانی سے نہیں مانتا تھا، خاص طور پر اپنی امی جان کی، اسے لگتا اس کی ماں اسے ہر بات میں بے عزت کردیتی ہے، اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔
اس کے برعکس ایان ایک کامیاب اور ملنسار انسان بنا۔ وہ سب کی نظروں میں اچھا تھا اور ہر کوئی اس کی مثال دیتا تھا۔ لیکن اس کے دل میں ہمیشہ یہ خوف رہتا کہ کہیں وہ کوئی ایسا کام نہ کردے جس سے اس کی "اچھا بچہ" کی تصویر خراب ہوجائے۔
ایک دن، سارہ بیگم دونوں بیٹوں کے ساتھ بیٹھی تھیں اور پرانے دنوں کی باتیں کر رہی تھیں۔ عمر نے اچانک کہا، "ماں، آپ کو یاد ہے آپ مجھے ہمیشہ بدتمیز کہتی تھیں؟ ہر وقت باتیں سناتی، میرے دوستوں، رشتہ داروں کے سامنے مجھے نالائق کہتی تھیں۔ مجھے لگتا تھا آپ مجھ سے پیار نہیں کرتیں، بس آپ ایان سے ہی محبت کرتیں ہیں جس وجہ سے میں اپنے بھائی سے بھی خفا رہتا۔
سارہ بیگم حیران رہ گئیں۔ "میں نے کب کہا؟" عمر نے کہا، "آپ ہمیشہ ایان کی تعریفیں کرتی تھیں اور مجھے کہتی تھیں کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اس لیے بدتمیز ہوں"۔ سارہ بیگم نے گہرا سانس لیا۔ انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے لاشعوری طور پر اپنے ایک بیٹے کی شخصیت کو منفی اور دوسرے کی شخصیت کو مثبت انداز میں ڈھال دیا تھا۔ وہ سمجھ گئیں کہ بچوں کی پرورش میں الفاظ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔ ایک لفظ، ایک جملہ، بچے کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے۔
سارہ بیگم نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور عمر سے معافی مانگی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد کبھی اسے دکھ پہنچانا نہیں تھا، بلکہ وہ صرف اس کی صحت کے لیے پریشان تھیں۔ عمر کو پہلی بار لگا کہ اس کی ماں نے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس دن کے بعد، ان کے تعلقات میں تھوڑا بہتری آنا شروع ہوئی۔ ایان نے بھی سارہ بیگم کو سمجھایا کہ ہر بچے کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور اس کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے۔
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ والدین کے الفاظ اور رویے بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک مثبت ماحول، جہاں ہر بچے کو اس کی انفرادیت کے ساتھ قبول کیا جائے، انہیں صحت مند اور پر اعتماد شخصیات بننے میں مدد دیتا ہے۔ اس لیے، والدین کو اپنے الفاظ کا چناؤ بہت احتیاط سے کرنا چاہیے، کیونکہ وہ الفاظ بچوں کی روح میں پیوست ہو جاتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

