Mitti Mila Aata Aur Ghaza Ke Baasi
مٹی ملا آٹا اور غزہ کے باسی
غزہ کے ایک خستہ حال خیمے میں حلیمہ خاتون اپنے دو ننھے بیٹوں، احمد اور یوسف کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ بھوک نے ان کے چہروں سے رونق چھین لی تھی اور وہ دونوں نڈھال ہو کر سہمے، سمٹے سو رہے تھے۔ خیمے کے ایک کونے میں، ان کے بزرگ دادا ابو عمر فاروق، بھوک کی وجہ سے بے جان سے پڑے تھے، ان کی سانسیں مدھم پڑ چکی تھیں۔ ہر گزرتا لمحہ موت کا پیغام دے رہا تھا۔
صبح کاذب کا وقت تھا جب دور سے ایک شور سنائی دیا، ایک بے رحم الارم جو امداد کی خبر لایا تھا۔ حلیمہ نے اپنے بچوں کے زرد چہروں اور دادا ابو کی کمزور ہوتی سانسوں کو دیکھا اور اپنی ساری سکت اکٹھی کرکے اس سمت بھاگی جہاں سے آواز آ رہی تھی۔ اس کے دل میں ایک ہی دعا تھی کہ وہ وقت پر پہنچ جائے۔ مگر جب وہ وہاں پہنچی، تو اس کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ جو کچھ بھی آیا تھا، وہ ختم ہو چکا تھا۔ صرف زمین پر گندم کا کچھ آٹا گرا ہوا تھا جو مٹی اور کنکروں سے لتھڑا تھا۔ حلیمہ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، کانپتے ہاتھوں سے وہ مٹی ملا آٹا اپنی بوسیدہ جھولی میں بھرا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جو اس مٹی ملے آٹے پر گر رہے تھے۔
جب وہ خیمے کے قریب پہنچی، احمد اور یوسف پوری ہمت سے ماں کی طرف دوڑے۔ "اماں! اماں! کچھ لائی ہیں؟" ان کی معصوم آوازوں میں بھوک اور تجسس تھا۔ حلیمہ نے اپنی جھولی سے وہ مٹی ملا آٹا نکال کر بچوں کے سامنے رکھا۔ "بیٹا، یہ تھوڑا سا آٹا ملا ہے، اسے پکا لیتے ہیں۔۔ "
احمد نے آٹے کو دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔ "اماں! یہ تو مٹی ہے! ہم یہ نہیں کھائیں گے"۔ یوسف بھی روتے ہوئے بولا، "ہمیں بھوک نہیں ہے اماں۔۔ ہم اپنے چچا کے پاس خان یونس کب جائیں گے؟ احمد نے بیچارگی سے ماں کی طرف دیکھا، کیا وہاں ہمیں کھانے کو ملے گا؟"
حلیمہ کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو بھر آئے۔ اس نے اپنے بچوں کو سینے سے لگایا اور آسمان کی طرف دیکھا۔ "یا اللہ! کہاں ہیں وہ مسلمان حکمران جو اس بھری دنیا میں ہمیں تنہا چھوڑ گئے ہیں؟ کیا انہیں ان معصوم بچوں کی بھوک نظر نہیں آتی؟" اس کے الفاظ میں درد تھا لیکن اس کے ساتھ ایک ماں کا پختہ ارادہ بھی تھا جو اپنے بچوں کو کسی بھی صورت میں ٹوٹنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ اس خیمے میں اب دکھ، بھوک اور موت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا لیکن حلیمہ کی آنکھوں میں ایک نئی جنگ لڑنے کا عزم تھا۔
حلیمہ نے اپنے بچوں کے معصوم چہروں پر پھیلی مایوسی اور بھوک کی تڑپ دیکھی۔ اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔ اس مٹی ملے آٹے کو وہ کیسے اپنے بچوں کو دیتی جب وہ اسے کھانے سے انکار کر رہے تھے؟ اس کی نظریں خیمے کے فرش پر پڑیں جہاں کچھ ہموار پتھر پڑے تھے۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور ایک انتہائی مشکل فیصلہ کرتے ہوئے، ان پتھروں کی طرف اشارہ کیا۔
"میرے بچو! دیکھو، جب ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ پر مشکل وقت آیا تھا اور انہیں بھوک لگتی تھی، تو وہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ اس سے بھوک کا احساس کچھ کم ہو جاتا ہے اور جسم کو سہارا ملتا ہے"۔ حلیمہ کی آواز میں ممتا کی نرمی اور مجبوری کی سختی دونوں شامل تھیں۔ "بیٹا احمد، تم یہ پتھر اپنے پیٹ پر باندھ لو اور یوسف، تم بھی یہ لے لو"۔
احمد نے پتھر کو دیکھا، اس کی آنکھوں میں ابھی بھی بھوک اور حیرت تھی۔ وہ شاید یہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ پتھر کیسے بھوک مٹا سکتے ہیں۔ لیکن یوسف بڑا ہونے کی وجہ سے سمجھدار تھا، جس کے دل میں اپنے نبیﷺ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، اس نے جلدی سے دو پتھر اٹھا لیے۔ اس کی ننھی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی، جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ "اماں! میرے پیارے نبی ﷺ نے دو پتھر باندھے تھے؟ میں بھی دو باندھوں گا"۔ اس نے معصومیت سے کہا اور فوراََ ایک پتھر اپنے پیٹ پر رکھا اور دوسرا اس کے اوپر رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
حلیمہ نے اپنے بچوں کو پتھر باندھتے دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ یہ منظر اس کی روح کو چیر رہا تھا۔ اس کی ممتا چیخ رہی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو کھانا کیوں نہیں دے سکتی، لیکن اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ پتھر صرف بھوک کو کم کرنے کا ایک بہانہ تھے، اصل میں یہ اللہ پر توکل کا اظہار تھا۔ اس خیمے میں، بھوک، موت اور بے بسی کے ساتھ اب صبر اور سنت نبویﷺ کی ایک نئی داستان رقم ہو رہی تھی۔

