Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Fatima Faiz/
  4. Mehfooz Aurat, Mazboot Gharana

Mehfooz Aurat, Mazboot Gharana

محفوظ عورت، مضبوط گھرانہ

"مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئی، کونسے حقوق کا مطالبہ کرنے کھڑی ہیں یہ نواب زادیاں" امی جان آج اتفاق سے خبریں دیکھنے بیٹھ ہی گئی تھیں، کہ سامنے ریلی کی شکل میں دوپٹے گلوں میں اٹکائے ہاتھ میں بینرز اٹھائے نوجوان خواتین لگی تھیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے، ایک تو میں دیکھتی نہیں خبریں کہ سارا دن دل پریشان رہتا ہے۔ اگر آج بھولے سے ٹیلی ویژن کھول ہی لیا، آگے یہ شہزادیاں عجیب حُلیے بنائے سڑکوں پہ نکلی ہیں، نہ کوئی نقاب نہ حجاب منہ اٹھائےکھڑی ہیں۔

امی جان وہ حکومت سے اپنے حق کا مطالبہ ہی تو کررہی ہیں، اس میں کیا برائی ہے؟ عائشہ جو کب سے خاموش بیٹھی اماں کی صلواتیں سن رہی تھی ایک دم بول پڑی۔ ارے ان کے ہاتھوں میں جو بینرز ہیں وہ تو پڑھو کیا لکھا ہے، ناہید بیگم نے غصے سے عائشہ کو گھورا۔ امی جان یہی تو لکھا ہے "دوپٹہ پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو، میرا جسم میری مرضی"، امی جان اب اگر کوئی عورت دوپٹہ نہیں لینا چاہتی تو نہ لے، ویسے بھی دین میں کوئی زبردستی تھوڑی ہے، عائشہ معصومیت سے گویا ہوئی۔ واہ واہ بڑی بات کی بیٹی تو نے، تو میرے چودہ طبق روشن کردیے، اماں طنزیہ مسکرائیں۔۔

بیٹا جی دین میں ایسا کوئی اختیار موجود نہیں کہ انسان اپنی مرضی کی زندگی گزارے، ایک مومن کی زندگی ایسی آزادی والی زندگی نہیں ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے، اسلام لانے کے بعد ایک مومن مرد اور مومن عورت کے اوپر تو بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بیٹا جی ہمیں اپنی عقل کا استعمال اسلامی اصولوں کےمطابق ہی کرنا چاہیے۔ جس طرح "زندگی ہمارے پاس ایک امانت ہے" مرد اور عورت دونوں کو اس امانتِ الٰہی کی حفاظت کرنا ہے، امانت پتا کیا ہے؟ ناہید بیگم نے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے تمہید باندھی "امانت سے مراد ہے زندگی کے تمام اختیار کو احکامات خداوندی کے تابع کر دینا"۔ بیٹا میری زندگی میرے اللہ کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے۔

ہمارا رہنا سہنا، پہننا اوڑھنا، زندگی کے تمام معاملات دین اسلام کے اصولوں کے مطابق ہونے چاہیں۔ اسی میں ہماری نجات ممکن ہے۔ امی جان عورتوں کو بھی تو آزادی سے گھومنے پھرنے دیا جائے، عورت کو کیوں پابند کیا گیا ہے گھر کی چار دیواری میں؟ اگر عورت میں کوئی ہنر ہے تو اسے استعمال کرنے کا حق بھی تو ہونا چاہیے، اب نہ تو عورت آزادی سے پڑھ سکتی ہے نہ کام کرسکتی ہے اسی لیے تو پھر کھڑی ہیں وہ، اور ہم انہیں غلط کہتے ہیں، عائشہ نے اپنی سی تاویل پیش کی۔ بیٹا "حضرت خدیجہؓ کون تھیں؟ ناہید بیگم نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوکہا، "مکہ کی مال دار ترین خاتون" وہ بھی تو ایک عورت تھی، علم کے اعتبار سے حضرت عائشہؓ کی سیرت پڑھو ان کے پاس کتنا علم تھا؟ اللہ نے ہمیں ہر طرح کی آزادی دے رکھی ہے ہم اگر کمانا چاہیں، علم حاصل کرناچاہیں، اسلام ہم پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا بس شرط یہ ہے کہ اسلام کی حدود میں رہیں۔

بیٹا! عورت خواہ ماں ہو، بیوی ہو یا بیٹی، ہر حیثیت میں قابلِ تکریم ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ معاشرے میں عورت ایک ڈیکوریشن پیس کی حیثیت میں بازار میں کھڑی کردی گئی ہے، یہ مسلمان معاشرے میں رہنے والے مردوں کے لیے بے غیرتی کی ایک علامت ہے۔ قرآن اور سنت کے خلاف روش اپنانے والی عورتیں اور مرد دونوں ہی قابلِ تعزیر ہیں، اِس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، ہر وہ کام جو فطرت کے خلاف کیا جائے باعثِ آزار ہوتا ہے۔ ترقی کے نام پرجو کچھ اسلامی معاشرے میں ہورہا ہے وہ رسوا کن ہے۔

"عورت اور مرد عزت اور مرتبے کے لحاظ سے برابر کا درجہ رکھتے ہیں، مگر زندگی کے نظام میں دونوں کے درمیان تقسیمِ کار کا اصول رکھا گیا ہے۔ مرد پر نسبتاً سخت کام کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، جبکہ عورت کو مقابلتاً نرم کام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس لیے کہ مرد جسمانی اعتبار سے زیادہ قوی اور عورت غیر قوی ہے"۔ 

مسلمان عورتوں کو"ان حقوق کا مطالبہ کرنا چاہیے جو انھیں اسلام نے دیے ہیں"۔ اگر وہ حقوق انہیں مردوں سے مل جائیں جو اسلام دیتا ہے تو پھر وہ اپنے خاندانوں میں محفوظ ہوں گی، خاندان مضبوط ہوں گے، ان مضبوط خاندانوں کے ملنے سے ایک مستحکم معاشرہ وجود میں آئےگا۔ بے شک امی جان عائشہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے تائید کی۔

تیری ہستی ہے زمانے کے لیے مشعل راہ
تیرے قدموں تلے جنت الفردوس بھی ہے

تو نے منزل کو تراشا ہے جواں ہمت سے
ڈٹ گئی راہ میں تو ہمیشہ چٹانوں کی طرح

Check Also

Solar Energy Se Bijli Hasil Karne Walon Ki Hosla Shikni

By Nusrat Javed