Hamara Watan, Payara Watan
ہمارا وطن، پیارا وطن
یکم اگست سے وَقتاًَ فوَقتاً جمع کی جانے والی چیزیں آج بی جان کے تخت پر رونق میلہ لگاۓ ہوئے تھیں۔ جھنڈے، جھنڈیاں، سبز و سفید چوڑیاں، بیج، اور طرح طرح کے فیتے غرض چودہ اگست منانے کے لیے سب لوازمات بڑے سلیقے سے سجائے گئے تھے۔ بچے بڑی حسرت سے بی جان کو تک رہے تھے۔ کب یہ سب ہم میں تقسیم ہوں اور ہم اپنے دوستوں کو دکھائیں۔ لیکن یہ کیا بھئ۔ ارحم کو تو کسی چیز میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
افففف کیا سوچا تھا۔ جھنڈا سائیکل پر لگا کر منہ میں باجا دبا کر خوب ون ویلنگ کرنی تھی۔ پورا مہینہ لگا کر دوستوں سے ایک پہیہ پر سائیکل چلانا سیکھا تھا۔ لیکن بی جان کے تخت پر باجا تو کیا باجے کا سایہ تک نہ تھا۔ میرا تو سارا منصوبہ ہی فیل ہوگیا۔ کہاں سے لوں گا اتنے پیسے آج کل مہنگائی بھی اتنی ہے پانچ سو سے کم اچھا باجا نہیں آنے والا۔ بارہ سالہ ارحم اپنی ہی سوچوں میں غلطاں اچانک ایک نتیجے پہ پہنچ کر مُبْہم سا مسکرایا۔ اور رنگ برنگی چیزوں کو اُلَٹ پَلَٹ کر دیکھنے لگا۔
بی جان ارحم نے لاڈ سے بی جان کو پُکارا۔ کیا آپ مجھے پانچ سو روپے دے سکتی ہیں۔ میرا ایک غریب دوست ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ بھی چودہ اگست والے دن ہماری طرح جھنڈا اور بیج خرید کر ہمارے ساتھ اس خوشی میں شریک ہوسکے۔ بی جان ہمیں خوشی کے موقعوں پر اپنے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے۔ اس طرح ہمارے درمیان بھائی چارے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ ننھی مریم نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ کیوں نہیں بیٹا بی جان نے نیا نکور پانچ سو کا نوٹ ارحم کو تھماتے ہوئے ساتھ لگایا۔ اور کہا بیٹا ہمیں ہر خوشی غمی کے موقع پر غریب لوگوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
یہ ملک ہم نے اخوت، محبت اور آپس میں بھائی چارے کے لیے ہی تو حاصل کیا ہے۔ میرے بچو۔ کیا آپ کو پتہ ہے۔ تعمیر پاکستان میں ہم نے اپنے بچے، بہن بھائی، عزیز و اقارب سب قربان کر دیے۔ پاکستان حاصل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بلکہ اس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ہجرت کے وقت کتنی ہی ماؤں کے بچوں کو ان کے سامنے قتل کردیا گیا۔ بی جان کیا آپ بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے آئی تھیں؟ ارحم نے حیرت سے پوچھا۔ ہاں بیٹا میں بھی مہاجرین میں شامل تھی۔ ہمیں بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر کہیں جا کر ہم اس وطن عظیم میں پہنچے۔ بی جان نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔
ہمارے سامنے کئی خاندانوں کو گھروں میں بند کرکے نذر آتش کر دیا گیا۔ کتنے بچے یتیم ہو گئے، جو ساری زندگی اپنے پیاروں کی شفقت کے لیے ترستے رہے۔ بیٹا ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ہرے بھرے وسیع و عریض کھیت، ہر قسم کی آزادی ہر طرح کی آسائش و آرائش جو میسر ہے۔ وہ کتنی قربانیوں کا حاصل ہے۔ اب اس ملک کی حفاظت ہمیں کرنا ہے۔ ہم نے اس ملک میں انصاف قائم کرنا ہے۔ لڑائی جھگڑے جھوٹ فساد سے اس کو پاک کرنا ہے تاکہ ہمارا پیارا وطن پاکستان عالم اسلام میں سب سے اعلٰی ملک کے طور پر ابھرے۔
بی جان مجھے معاف کر دیں۔ ارحم نے شرمندگی سے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور پانچ سو کا نوٹ بی جان کو واپس تھمایا۔ بی جان میں آج سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس پاک وطن پر کبھی آنچ نہ آنے دوں گا۔ بی جان ہم عزم کرتے ہیں کہ ہمارا جینا مرنا اس ملک کی خاطر ہوگا۔ ہم اپنے شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہ جانے دیں گے۔ مریم نے چہک کر کہا۔ بی جان نے سب بچوں کو محبت سے ساتھ لگایا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔