Monday, 21 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fatima Faiz
  4. Akhir Hum Kya Karen

Akhir Hum Kya Karen

آخر ہم کیا کریں

استغفراللہ استغفراللہ امی جان فجر کے وقت موبائل کھولے بیٹھی فلسطین سے پہنچی بریکنگ نیوز دیکھ رہی تھیں۔ جہاں فلسطینی صحافی صالح الجعفراوی کل رات شہداء الاقصٰی ہسپتال کے خیموں میں لگنے والی آگ کے دل دہلا دینے والے مناظر کو الفاظ میں بیان کر رہے ہیں۔

قابض اسرائیلی فوج نے اپنے بد ترین مظالم میں اضافہ کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں وسطی غزہ کے شہداء الاقصی ہسپتال میں موجود بے گھر فلسطینیوں کے "خیموں پر بڑا فضائی حملہ کیا جس کے باعث ان خیموں میں آگ لگ گئی اور بچوں سمیت بہت سے لوگ زندہ جلا دے گئے"

"انہیں زندہ جلا دیا گیا! یہ لوگ زندہ جلا دیے گئے! "

وہ مریض جو ڈرپس سے منسلک تھے وہ بھی اسرائیلی فضائی حملے میں زندہ جل گئے۔

صحافی چیخ چیخ کر امت مسلمہ کو جگانے کی کوشش کررہا تھا کہ شاید کوئی صلاح الدین اس کی پکار کا جواب دے، لیکن یہاں سب سوئے پڑے ہیں۔ ایک سو ستاون اسلامی ممالک سو رہے ہیں۔ بیٹا کوئی ان کی فریاد کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ امی جان منہ پہ دوپٹہ رکھے روئے جارہی تھیں اللہ ان یہودیوں کو غارت کرے، ان کی بیویوں کو بیوہ کرئے، ان کے بچوں کو یتیم کرے، ساتھ ساتھ بدعاوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری تھا۔

امی جان نہ روئیں فاریہ ساتھ کھڑی نیوز دیکھ کر امی کو دلاسا دینے لگی حالانکہ خود اپنے آنسووں پر بھی قابو پانا مشکل ہورہا تھا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی امی دوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف کرتی باہر جانے لگیں۔ دروازہ کھولتے ہی باجی راحت کا پر شفیق چہرہ دیکھتے ہی مسکرا دیں۔ ارے بہن آپ! آئیے اندر آجائیے روبینہ بیگم نے خلوص دل کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ آنٹی راحت جو کہ ہر ہفتے درس قرآن کرواتیں اور رمضان میں دورہ قرآن کا اہتمام بھی کرتی تھیں، میں ذرا آج درس قرآن کی دعوت دینے آئی ہوں شام تین بجے، سوچا ذرا محلے کی خیر خبر بھی لے آوں اور دعوت بھی دے آوں باجی راحت نےاپنے آنے کی وجہ بتائی۔

ہاں ہاں بہن کیوں نہیں ہم ضرور آئیں گے ان شاءاللہ روبینہ بیگم نے خوش دلی سے دعوت قبول کی۔ آپ سنائیں اتنی کمزور لگ رہی ہیں طبیعت ٹھیک ہے نہ باجی راحت نے نرمی سے ہاتھ دبا کر پوچھا۔ آنٹی جی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اوپر سے نیوز دیکھ دیکھ کر بی پی ہائی کرلیتی ہیں۔ اتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ نہ دیکھا کریں اگر برداشت نہیں ہوتا، فاریہ نے گویا آنٹی کو شکایت لگائی۔ ارے کس خبر نے میری بہن کو اداس کردیا باجی راحت نے نرمی سے پوچھا۔ فلسطین کی خبریں دیکھتی رہتی ہیں۔

اب دیکھیں آنٹی جی میں نے تو فلسطین کا کوئی گروپ جوائن نہیں کیا نہ ہی مجھ سے اتنا درد دیکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے حکومت کو چاہیے وہ کوئی اقدام کرے، فاریہ تو گویا ہر پریشانی سے آزاد ہوئی بیٹھی تھی۔ لیکن بیٹا آپ مجھے ذرا یہ بتائیں کہ آپ نے کس جماعت کو ووٹ دیا تھا؟ باجی راحت نے فاریہ کی بات غور سے سنتے ہوئے کہا۔ آنٹی جی معزرت کے ساتھ میں نے ووٹ جماعت کو نہیں دیا فاریہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔

اچھا تو پھر جس بھی جماعت کو دیا وہ آج فلسطین کے لیے کیوں نہیں کچھ کررہی؟ باجی راحت کے سوال نے فاریہ کو لاجواب کردیا۔ بیٹا غلط لوگوں کو اقتدار میں لانے والے بھی ان کے ساتھ ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔ وہ کیسے آنٹی جی؟ فاریہ نے پریشانی سے باجی راحت کی طرف دیکھا۔

کیوں کہ بیٹا جی ہمیں اقتدار میں ان کو لانا چاہیے۔ جو ملک میں اسلام کا نظام قائم کریں، سود ختم کریں آپ کو علم ہے نا ہمارا سارا نظام ہی سودی ہے اور سود کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ سود اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ اعلانیہ جنگ ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے ٹی وی چینلز پر اعلانیہ زنا کاریاں فحش ڈرامے اور بے ہودہ فیشن جو پروموٹ ہورہے، ان کی روک تھام کا کون ذمہ دار ہے؟ عدالتوں میں کمزور کو سزا اور طاقتور کو کھلی چھوٹ کس نے دی ہے؟ آخر اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ فاریہ جو کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں چونک گئی جی ہاں بیٹا اس سب کے ذمہ دار ہم عام ووٹر ہی ہیں۔ باجی راحت نے فاریہ کی خاموش آنکھیں پڑھتے ہوئے جواب دیا۔ ہم سمجھتے ہم نے اپنے دل کی خوشی سے جس کو مرضی ووٹ دے دیا۔ اب ہم اس ساری ذمہ داریوں سے آزاد ہیں۔ حکومت کو گناہ ہوگا سو ہوتا رہے۔ فاریہ شرمندگی نظریں جھکا گئی۔

بیٹا اگر تو ہم نے دیانت دار شخص کو ووٹ دیا جو قرآن و سنت پر عمل کرتا ہے اورملک میں نظام اسلام نافذ کرنے کا عظم رکھتا ہے، تو وہ جیتے یا ہارے پھر ہمیں پریشان نہیں ہونا کیوں کہ ہم کل قیامت کو گواہی دینے والے ہوں گے اے اللہ ہم نے تو تیرے صالح بندوں کو چنا تھا۔

نہ کہ ان بے دینوں کو جنہوں نے اقتدار ہونے کے باوجود تیرے قانوں کی دَھجِّیاں بکھیر ڈالیں، جن کے سامنے مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے اور ان کے کان پر جُوں تک نَہ رِینگْی، جنہوں نے ہمارے معاشرے میں بے حیائی کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیا بلکہ میوزک فیسٹیول منعقد کروائے۔ ہم کہنے والے ہوں گے، یا الہی ہمیں ان میں شامل نہ کرنا، ہم سے تو جو ہو سکا ہم نے کیا، ہم قلم سے روکتے رہے۔ ہم نے ریلیوں کی شکل میں آواز اٹھائی ہم نے فنڈز کی شکل میں جتنی ہوسکی امداد بھیجی، الہی ہم نے تو اپنی سے کوشش کی ہے، تو ہم سے وہ قبول فرما۔

باجی راحت نے بہت سے آنسو دل مین اتار کر فاریہ کی جانب دیکھا۔ جس کے آنسو گالوں کو تواتر سے بھگو رہے تھے۔ آنٹی پھر تو میں بھی شریک جرم ہوں۔ میں نے تو اس طرح کبھی سوچا ہی نہیں فاریہ شرمندہ سی بولی۔ ارے بیٹا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب آئیندہ ہر قدم سوچ سمجھ کراٹھانا۔ میری بچی یہ زندگی امانت ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس زندگی کو جنت کے بدلے ہم سے خریدا ہے۔ پھر ہم اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے قانون کو اپنی مرضی سے نہیں چلا سکتے اگر ہم دنیا کے بدلے جنت چاہتے ہیں تو۔

لیکن آنٹی اب ہم کیا کرسکتے ہیں فلسطین کے لیے فاریہ نے اپنے غلط فیصلے کی تلافی کرنے کا سوچا۔ ماشاءاللہ بیٹی اچھے لوگ وہی ہوتے جو کسی غلط بات پر اکڑتے نہیں بلکہ جب بھی ان سے غلطی ہو جائے تو فورا پلٹتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کو بھی ایسے لوگ بہت پسند ہیں۔

میں تمھیں بتاتی ہوں اب بھی ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے اللہ پاک سے توبہ کرنی ہے اور اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنی ہے۔

پھر جہاں تک ہوسکے خواہشات نفس پر قابو پانا ہے۔ نفس کی ہر بے جا خواہش کو پورا کرنے نہیں بیٹھ جانا باجی راحت نے فاریہ کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔ کہاں باجی آج کل کے بچے موبائل پہ ڈرامہ نہیں چھوڑتے روبینہ بیگم جو خاموشی سے ساری گفتگو کو دل میں اتار رہی تھی ایک دم سے گویا ہوئیں۔ نہ باجی روبینہ ایسے نہ کہیں ایک نوجوان جتنی جلدی اپنی بری عادات چھوڑتا اتنی جلدی ایک ضعیف شخص نہیں چھوڑسکتا۔ اسی لیے اللہ تعالٰی کو نوجوانوں کا دین پہ چلنا زیادہ پسند ہے۔ آنٹی اس کے بعد کیا کرنا ہوگا فاریہ نے جلدی سے کاپی پینسل نکال لی تاکہ کوئی نقطہ رہ نہ جائے۔

اس کے بعد بیٹا دعا کرنا فلسطین، کے لیے پاکستان اور تمام مسلم ممالک کے لیے اور آپ کو پتہ سب سے بہتر وقت دعا کا کونسا ہوتا؟ فرض نماز کے بعد آذان کے بعد فاریہ نے جلدی سے جواب دیا بلکل بیٹا لیکن ایک اور وقت ہے اور وہ ہے تہجد کا، باجی راحت نے تہجد پر زور دیتے ہوئے کہا، آنٹی جی تہجد میں اٹھنا تو بہت مشکل ہے، فرض نماز تو میں الحمدللہ ساری پڑھ لیتی ہوں فاریہ نے تعجب سے کہا، نہ بیٹا جو بچے ساری رات دنیاوی امتحانوں کی تیاریاں کرسکتے ہیں، ساری ساری رات موبائل چلا سکتے ہیں، ان کے لیے بہت آسان ہے صبح اٹھنا، بس آپ ایک مہینہ دس دن مثلا چالیس دن لگاتار تہجد پڑھ لو اللہ پاک کے فضل سے کبھی نہیں چھوٹے گی، لیکن پہلے فرائض ضروری ہیں۔

اس کے بعد ہے فنڈز دینا صدقہ و خیرات بھیجنا آپ کو پتا ہے الخدمت والے ہر ملکی وغیر ملکی سرگرمی میں پیش پیش ہیں فلسطین کا معاملہ ہو یا سیلاب زدگان کا وہ ہر جگہ پہنچتے ہیں، ہمارا کام ہے، اپنے مال سے ان کی مدد کرنا۔

پھر اسرائیلی مصنوعات کا بائی کاٹ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

اس کے بعد قنوت نازلہ کا اہتمام کرتا رات وتر نماز میں اور صبح فجر میں ہمارے نبیﷺ نے قنوت کیا۔

ہمیں بھی فلسطین کے لیے مسجدوں اور گھروں میں قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔

بیٹا ہم نے قرآن وسنت کو نہیں چھوڑنا فرقہ واریت میں نہیں پڑنا دشمن ہمیں فرقوں مین الجھا کر ختم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں اسلام کے نام پر ایک ہونے کی ضرورت ہے، اور جو نام ہمارا قرآن میں اللہ تعالٰی نے رکھا ہے ہمیں وہی اختیار کرنا چاہیے۔ آنٹی جی قرآن میں ہمارا کونسا نام رکھا ہے؟ فاریہ نے معصومیت سے پوچھا۔ بیٹا قرآن مین اللہ تعالٰی نے ہمیں مسلم کہا ہے۔ فرقوں یعنی شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی سے منع کیا ہے یہ ذات پات صرف پہچان کے لیے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہیں کسی کو کسی فرقے پر فوقیت حاصل نہیں بس جو زیادہ تقوی والا ہے وہی کامیاب ہے۔ رنگ نسل اور فرقوں کی بنیاد پر ہم میں سے کوئی ایک دوسرے سے اونچا نہیں قرآن میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿105﴾

ترجمہ: (تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے)۔

جس جس صلاحیت سے اللہ تعالٰی نے آپ کو نوازا ہے۔ اس کا بہترین استعمال کریں۔ اگر آپ لکھ کر آواز اٹھا سکتے ہیں۔ تو قلم کے ذریعے جھاد کریں اگر آپ لوگوں کو زبان کے ذریعے بیدار کرسکتے ہیں، تو زبان سے پکاریے، لیکن خاموش نہ بیٹھیے۔ فلسطینیوں کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا وقت ہے، اب بستروں میں بیٹھ رہنے وقت نہیں، اب اپنے بہن بھائیوں اور معصوم بچوں کے لیے آواز اٹھانے وقت ہے، جہاں بھی آپ ہیں جو بھی آپ کے پاس سہولت ہے، وہ استعمال کریں اور فلسطین کی آواز بنیں۔

باجی راحت نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں، اچھا بیٹا میں چلتی ہوں شام کو ضرور آنا انہوں نے فاریہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یاددہانی کروائی۔ جی آنٹی جی ہم ضرور آئیں گے اور میں آپ کی ساری باتوں پر آج سے ہی عمل کرنا شروع کردوں گی ان شاءاللہ، فاریہ نے خلوص دل سے کہاان شاءاللہ میری بچی امی جان نے بھی فاریہ کو گلے لگاکرپیار کیا۔

Check Also

Pakistan Mein Feminism

By Mojahid Mirza