Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Muhangai Aur Bebas Wazir Azam

Muhangai Aur Bebas Wazir Azam

مہنگائی اور بے بس وزیر اعظم

پاکستان تحریک انصاف جن بلند بانگ دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی وہ دعوے ہوا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 2011 سے لے کر 2018 تک پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک ایسا ماحول ترتیب دیا گیا تھا جس سے یوں لگتا تھا کہ تمام مسائل کے حل کی کنجی عمران خان کے پاس ہے۔ جناب عمران خان نے بھی اپنی تقاریر سے ایسا تاثر دیا تھا کہ جیسے ان کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو ایک دم ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی۔ پاکستان کا وہ کونسا شعبہ تھا جس کی اصلاح کے لئے جناب عمران خان نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا برملا دعوی نہیں کیا تھا۔ دکھوں کی ماری عوام نے بھی عمران خان کو مسیحا سمجھ لیا۔ مہنگائی، کرپشن کے خاتمے، سرکاری اداروں کی اصلاح، بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کے حل کے لیے تحریک انصاف ہی امید کی واحد کرن دکھائی دینے لگی۔ تحریک انصاف کے اسٹیج سے بار بار اس بات کا دعوی کیا جاتا تھا کہ ان کے پاس ماہرین کی ایک ایسی ٹیم موجود ہے جو چٹکی بجاتے ہی ملک کو اس گرداب سے نکال لے گی۔

لیکن ،اے بسا کہ آرزو خاک شدہ۔ تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے جو واپس جانے کا نام نہیں لے رہا، ایک کروڑ نوکریوں کا دعوی کرنے والوں نے لوگ بے روزگار کرنا شروع کر دیے، اداروں میں اصلاحات کا آغاز تو کیا ہونا تھا، وہ بدانتظامی کا گڑھ بن گئے، آج ہر شخص بے بسی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو ہمارے وزیراعظم سب سے زیادہ بے بس نظر آرہے ہیں۔ ان کو ایسے لوگوں نے گھیر لیا ہے جن کی پاکستان میں جڑیں ہی نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک مافیا ہے جس نے نظام حکومت پر اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ باہر کے ممالک سے درآمد کیے گئے لوگ جن کو یہاں کے حالات سے ذرا بھی واقفیت نہیں وہ ٹھنڈے یخ بستہ کمروں میں بیٹھ کر غربت کی ماری اس قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور عوام کے منتخب نمائندے ان کے فیصلوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد کے ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں کچھ افراد کے نام اونچی سرگوشیوں میں لیے جا رہے ہیں جو بادی النظر میں یوں لگتا ہے ہے کہ وہ کسی غیر ملکی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مشن پر ہیں۔ ہمارے اسٹیٹ بینک کے گورنر جو آئی ایم ایف کے ملازم ہونے کے ناطے مصر میں تعینات تھے وہاں کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد پاکستان کی تقدیر سنوارنے چلے آئے اور تدریجاً تباہی کا عمل شروع کردیا ہے۔ وزیراعظم جب بھی ٹی وی سکرین پر نمودار ہوتے ہیں تو ان کے چہرے سے ان کی بے بسی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں لیکن بے بس ہوں۔

ان کی گفتگو میں ایک درد کا عنصر ہوتا ہے۔ ان کے لہجے میں قوم کے لئے تڑپ ہوتی ہے۔ لیکن ان کی گفتگو کا درد، قوم کے سر کا درد بن چکا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک خاص منصوبے کے تحت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غیر ملکی مالیاتی اداروں کی فوج ظفر موج پاکستانی اداروں کے سروں پر بیٹھ چکی ہے۔ اور وہی کچھ کر رہے ہیں جو وہ عالمی مالیاتی ادارے چاہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی طور پر مہنگائی کا طوفان ہے، اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ ہے، یہ بات بھی درست ہے کہ دنیا کے امیر ممالک بھی ان مسائل سے دوچار ہیں، اس بات کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا کہ پوری دنیا میں لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے، لیکن جو اندھیر نگری پاکستان میں مچی ہوئی ہے اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

عالمی طاقتوں کا ایجنڈے ہے کہ پاکستان میں وہی حالات پیدا ہوں جو مصر اور لبنان میں پیدا ہو چکے ہیں، روپے کی قدر و قیمت میں ہوشربا کمی، ڈالر کی قیمت میں بے پناہ اضافہ، پٹرول کی قیمتوں کے سامنے بے بسی، ذرائع روزگار میں کمی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں یکدم اضافہ، یہ سارے حالات مل کر پاکستان کو ایسی بند گلی میں دھکیل رہے ہیں جن سے نکلنا نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ہو جائے گا۔ مہنگائی کاکا یہ بوجھ عوام کب تک برداشت کرے گی۔ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے وزیراعظم کے پاس کوئی ٹیم موجود نہیں۔ ٹیم کے نام پر غیر ملکی شہریت رکھنے والے جو بابو اکٹھے کیے گئے ہیں انہیں پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جب عوام مہنگائی سے تنگ آکر سے باہر نکلیں گے، تو یہ بابو حضرات اپنا بریف کیس لیں گے اور اپنے وطن چلے جائیں گے۔

بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ عالمی طاقتوں کی اصل توجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے ہمارے ایٹمی پروگرام پر سوالیہ نشان ثبت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس طرح ایران کا گھیرا تنگ کر کے اسے بے بس کر دیا گیا ہے اسی طرح پاکستان کو اندرونی عدم استحکام کا شکار کر کے یہاں کا نظام حکومت مفلوج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس خطرناک ماحول میں پاکستان کی سیاسی قیادت کا کردار افسوسناک حد تک غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ملکی اداروں پر گفتگو کرتے ہوئے جس طرح غیر سنجیدہ زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔

مہنگائی کے اس طوفان کی جتنی ذمہ دار حکومت ہے اتنی ہی اپوزیشن بھی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ذاتی مسائل پر بات کی ہے، کوئی مقدمات کی بات کرتا ہے تو کوئی ملکی اداروں کے سربراہوں پر طنز کے نشتر چلاتا ہے۔ ان کے رویہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کیا ملک کی باگ دوڑ ان لوگوں کے ہاتھ میں دی جائے گی؟ جبکہ حکومت نے ضد اور ہٹ دھرمی کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے وزیراعظم پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے پر رضامند نہیں۔ دوریاں اتنی بڑھ چکی ہیں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔

وزیراعظم صاحب۔ خدا کے لئے اپنی انا کے خول سے باہر نکلئے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کیجیے۔ موجودہ مسائل سے نمٹنے کے لیے اکیلی تحریک انصاف کافی نہیں۔ تمام جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ ملک کی سیاسی قیادت ہی پاکستان کو اس گرداب سے نکال سکتی ہے۔ اگر فیصلہ سازی اسی نالائق ٹیم کے مشورے سے ہوتی رہی تو پاکستان کے عوام کیلے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوجاے گی۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra