Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Imran Khan Aur Qabl Az Waqt Intekhabat

Imran Khan Aur Qabl Az Waqt Intekhabat

عمران خان اور قبل از وقت انتخابات

لاہور اور اسلام آباد کے باخبر اور صحافتی حلقوں میں یہ سوال اکثر پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ملک قبل از وقت انتخابات کی طرف جارہا ہے؟ حکومت کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے صحافیوں نے اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان سے وقت سے پہلے انتخابات کروانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ انتخابات تحریک انصاف کے لیے کس حد تک مفید یا غیر مفید ہوں گے اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ پاکستان کی تقدیر کے لیے بہتر ثابت ہوگا یا نہیں۔

عمران خان بلند بانگ دعووں کے ساتھ اقتدار کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ کرکٹ کی دنیا سے سیاست کے میدان تک ہر مقام پر پاکستانی قوم نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔ جس میدان کی طرف انہوں نے قدم بڑھایا کامیابی نے ان کا مقدر بنی۔ سماجی خدمت کے راستے میدان سیاست میں داخل ہوئے تو وہی امیدیں وابستہ کرلیں گی جو کرکٹ اور شوکت خانم اسپتال بناتے وقت وابستہ کی گئی تھی، عمران خان مسلسل محنت کی بدولت 2018 کے انتخابات میں مسند اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، عمران خان نے احتساب کے نعرے پر انتخاب لڑا تھا، چوروں اور ڈاکوؤں کے پیٹ سے رقم نکالنے کے دعوے کیے، احتساب کے کوڑے کے ذریعے ملک کی طاقتور اشرافیہ کو درست سمت پر لانے کا عہد کیا تھا، ڈی چوک کا کنٹینر ہو یا ملک کے طول و عرض میں منعقد کیے جانے والے بڑے بڑے جلسے ہر مقام پر عمران خان کا یہی نعرہ تھا کہ وہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا۔

آج ان کے انتخاب کو تین سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے لیکن نہ تو کسی مجرم کو سزا ملی ہے اور نہ ہی بیرون ملک سے اربوں ڈالر تو کیا ایک دھیلا بھی واپس آیا ہے، آج عمران خان کا ووٹر مایوسی کا شکار ہے، احتساب کے حوالے سے حالیہ ترمیمی بل نے ان کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ عمران خان بھی روائیتی سیاستدانوں کا ایک نیا ایڈیشن ہے۔ ان کے اردگرد بھی وہی لوگ ہیں جو پہلے حکمرانوں کی کچن کیبینٹ کا حصہ ہوتے تھے، چینی بحران پیدا کرنے والے عناصر عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں، آٹے کے بحران سے فائدہ اٹھانے والے لوگ عمران خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں، حکومتی سٹیج سے اب بھی احتساب کی تقریریں ہوتی ہیں، اب بھی پیٹ پھاڑ کر دولت باہر نکالنے کے دعوے کیے جاتے ہیں، شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں اقتدار میں آئے ہوئے تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے، لیکن ان کے کریڈٹ میں سواے نعروں کے اور کچھ نہیں۔

نئے پاکستان میں معیشت کی کشتی ڈوب رہی ہے، خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ جو دوست ممالک پہلے عطیہ کے طور پر ریال دیا کرتے تھے تھے اب کڑی شرائط کے ساتھ بھاری شرح سود پر پاکستان کو قرض دیتے ہیں۔ سالانہ شرح ترقی تباہی کی حد تک گر چکی ہے، بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے، بیرونی سرمایہ کاری میں 30 فیصد کمی ہو چکی ہے، حکومت کی متلون مزاجی کا یہ عالم ہے کہ تین سالوں میں تین وزرائے خزانہ لگائے گئے، ایجوکیشن جیسے محکمہ کے سیکرٹری 9مرتبہ تبدیل ہوئے، ایف بی آر کے چیئرمین 6 مرتبہ تبدیل کیے گئے، بورڈ آف انویسٹمنٹ اور کامرس کے سیکرٹری 4 مرتبہ تبدیل ہوئے، عدلیہ بھی انحطاط کا شکار نظر آرہی ہے، جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک نے عدلیہ کے وقار پر گہرا گھاؤ لگایا ہے، لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران کی جانے والی تقاریر نے عدلیہ کے حوالے سے معاشرے میں پائے جانے والے اضطراب کو واضح کیا ہے، اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جن کے فیصلے بولا کرتے تھے انہیں خود ڈائس پر کھڑے ہوکر وضاحت دینا پڑ رہی ہیں، حکومتی وزراء نجی مجالس میں کھل کر اپنی حکومت سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں اور دیگر بڑی جماعتوں کے ساتھ آئندہ انتخابات کے لئے ٹکٹ کے حصول کی دوڑ میں سرگرم ہیں۔

دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان کی حکومت تین سال سے یہی صفائیاں دے رہی ہےکہ ان کا اقتدار اداروں کی آشیر باد کے مرہون منت نہیں بلکہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے برسراقتدار آئے ہیں لیکن عوام یہ بات ماننے کو تیار نہیں، آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کے موقع پر حکومتی بد تدبیری سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات جو دراڑ آئ ہے وہ ختم نہیں ہوسکی۔ اور پھر ان کی بری کارکردگی کا سارا بوجھ اداروں کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے ورنہ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ اداروں نے کب حکومت کو روکا ہے کہ وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کریں؟

ادارہ کب یہ چاہتا ہے کہ حکومت کرپشن کے خلاف اقدامات نہ کرے،؟ ادارے کب یہ پسند کریں گے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری نہ آے۔ لیکن بد انتظامی، بے تدبیری اور نالائقی کا ملبہ اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ادارے اب یہ بوجھ مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ملک کو اس صورتحال سے دوچار کرنے میں اپوزیشن بھی برابر کی شریک ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر صحت مند کردار ادا نہیں کیا۔ ان کی ساری توجہ اپنے ذاتی مقدمات تک محدود ہے۔ ان کی تقاریر میں الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے پاس موجودہ مسائل سے نمٹنے کا کوئی فارمولا موجود نہیں۔

حکومت کے اچھے کام کی بھی مخالفت کی جاتی ہے اور برے کام کی بھی۔ اس بھاری بھرکم اپوزیشن میں میاں شہباز شریف جیسا تجربہ کار، آصف علی زرداری جیسا جہاں دیدہ، بلاول بھٹو زرداری جیسا سرگرم سید یوسف رضا گیلانی جیسے متحمل مزاج، اور خواجہ سعد رفیق جیسے پرجوش سیاستدانوں کی موجودگی کے باوجود وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہے۔ بلکہ حالات میں بہتری کے لیے وہ مثبت تجاویز بھی پیش نہ کر سکے۔ عمران خان جو دلیرانہ فیصلے کرنے میں شہرت رکھتے ہیں ان کے لئے سنہرا موقع ہے کہ وہ قبل از وقت انتخابات کرا کے نیا مینڈیٹ حاصل کریں۔ نیا مینڈیٹ احتساب کے نعرے کے ساتھ ساتھ نئے ڈیم بنانے، گیس اور بجلی کے بحران کے حل، معاشی سرگرمیوں کے فروغ، بے روزگاری کے خاتمے جیسے نکات پر مشتمل ہو۔

ملک کی موجودہ صورتحال کو سنبھالنا اب اکیلے تحریک انصاف کے بس کی بات نہیں۔ تمام سیاسی اشرافیہ کو مل کر کوئی ایک لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تب جاکر اس بحران سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا ہو سکے گی۔ جناب عمران خان نے اگر یہ فیصلہ کرنے میں مزید کچھ ماہ ضائع کردیے تو ان کے اقدامات بے فائدہ ہوں گے۔ اس لیے عمران خان آگے بڑھیں، ملک و قوم کے مفاد میں نئے انتخابات کا اعلان کریں۔ عوام کی عدالت بہترین فیصلہ کرے گی۔ یادرکھیں تاریخ کے صفحات پر بہادری سے فیصلہ کرنے والے موجود رہتے ہیں جبکہ اگر مگر کا شکار رہنے والے لیڈروں کے نام تاریخ کی گرد میں گمنامی کی نظر ہوجاتے ہیں۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari