Glasgow Conference 2021 (1)
گلاسگو کانفرنس 2021 (1)
ماحولیاتی تبدیلیوں پر غور کرنے اور اس کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کے طور پر سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے لیے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک عالمی رہنماؤں نے 2030 تک جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور کاربن گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کے اہداف کے حصول کے لیے نئی مہم کے آغاز پر زور دیتے ہوئے سرکاری اور نجی شعبے میں بیس ارب ڈالر جمع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
اس کانفرنس کے انعقاد اور عالمی راہنماؤں کی فکر مندی نے ایک مرتبہ پھر اس تصور کو درست ثابت کیا ہے کہ دنیا ایک عالمی گاؤں کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اور کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کسی ایک ملک کی بے احتیاطی کی قیمت دوسرے ممالک کو ادا کرنی پڑتی ہے۔آگ کہیں لگتی ہے، دھواں کہیں اٹھتا ہے اور نقصانات کہیں اور ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تغیرات سے تمام ممالک پریشانی سے دوچار ہیں۔ سائنسدانوں نے تو کئی سال قبل ہی کرہ ارض پر ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔ اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے متعلق بھی وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جاتا رہا۔ لیکن دنیا نے اس پر کان نہ دھرے۔ اور نقصانات توقع سے کہیں زیادہ ہو گئے۔
اس وقت پوری دنیا کو ماحولیاتی تغیر کا سامنا ہے، اگر بروقت مناسب تدابیر اختیار نہ کی گئیں اور درجہ حرارت بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب کرہ ارض ماحولیاتی تغیر کی لپیٹ میں آکر انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے انتہائی خطرناک ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی حکومتوں کے درمیان ماحولیاتی تغیر کے پینل کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہے، بعض تبدیلیاں تو ایسی ہیں جنھیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال بھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اگر کمی نہ لائی گئی تو عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ گنا اور موسمی درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ نا گزیر ہو جائے گا، اس طرح سے بڑھتا حرارت کرہ ارض پر موجود زندگی کے لیے نقصان دہ بن جائے گا۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ہونے والے ممالک میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں آلودگی کا تعلق عالمی موسمیاتی تبدیلی سے کم اور ہماری اپنی غلطیوں سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم جو کوڑا کو آگ لگانا کے قائل اور سمجھتے ہیں یہ ایک مناسب قدم ہے، وہ چاہے بلدیاتی حکومت کے ادارے ہوں یا انفرادی طور پر عوام، ہم کوڑا جلا دیتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک پلاسٹک بیگز ہیں جو اگر جلتے ہیں تو ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں دریاوں اور زیر زمین پانی اور ہوا کی آلودگی پیدا ہو چکی ہے جو اب خطرناک حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے، یہاں بھی فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھویں کے بادل، لاکھوں گاڑیوں کا دھواں اور صنعتوں کے فضلے نے سمندر کو بھی آلودہ کردیا ہے، جب کہ دوسری جانب زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مشکل ہیں۔
ایک طرف موسمیاتی تبدیلیوں نے زراعت کو متاثر کیا ہے۔ تو دوسری طرف زہریلی ادویات نے بھی زرعی آلودگی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پاکستان کی زراعت پر اثر کچھ اس طرح نمودار ہوا ہے بے وقت کی بارش اور طوفانوں نے فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ جب فصل کے پکنے کا موسم آتا ہے تو بارش اس کے نظام کو تہ وبالا کر دیتی ہے۔ اور جب آرام کی ضرورت ہوتی ہے تب ضرورت کے مطابق بارش دستیاب نہیں ہوتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ایک طرف زرعی پیداوار میں کمی آتی ہے تو دوسری طرف جو پیداوار ہوتی ہے وہ زہریلی ادویات کے کثیر استعمال کے باعث فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ہو جاتی ہے پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لگ بھگ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام کرم کش ادویات ملٹی نیشنل کمپنیاں بناتی ہیں۔ ، بحیثیت قوم ماحول دشمنی میں ہم اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات نے پورے ملک خصوصاً پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہوتا ہے۔ دھند جیسی نظر آنے والی اسموگ میں سلفر، لیڈ، میتھین سمیت بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی ہے، اسموگ کا مسئلہ پورے ملک بالخصوص صوبہ پنجاب میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کھیتوں کی صفائی کے لیے کوئی جدید طریقہ یا آلات دستیاب نہ ہونے کے باعث کسان اگلی فصل کی کاشت سے پیشتر پچھلی فصل کے مڈھوں کو جلا ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً متصل دیہاتوں اور شہروں میں اسموگ کی ایک بڑی وجہ بنتے ہیں۔ اسموگ سے آلودہ فضا میں ایک دن سانس لینا، دو سو سے تین سو سگریٹ پھونکنے کے مترادف ہے۔
گزرے برس لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں اسموگ کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں اور متعدد افراد اسپتالوں میں داخل رہے۔ لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح بہت بلند ہے اور یہ شہر آلودگی کی رینکنگ میں مسلسل سرفہرست شہروں میں شامل ہوتا ہے۔ لاہور کے علاوہ دیگر بڑے شہر بھی اسی طرح کی آلودگی کا شکار ہیں۔ کراچی جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے وہاں صنعتی آلودگی اپنے عروج پر ہے۔ فیصل آباد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اور جن جگہوں پر صنعتیں نہیں ہیں وہاں دیگر ذرائع سے آلودگی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس طرح کے چیلنجز سے نپٹ امید حکومت کے بس کی بات نہیں۔ تاہم حکومت بھی اپنے طور پر متعدد اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستان جیسے کثیر آبادی اور کم وسائل والے ملک میں صنعتوں کا وجود غنیمت ہوتا ہے۔ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت ان میں سے ایک ہے جو کثیر تعداد میں پاکستانی لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ روزگار کی فراہمی کے ساتھ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔ لیکن اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں ان دونوں صنعتوں کا بہت کردار ہے۔
ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ہے اور اس سیکٹر کی فیکٹریوں بالخصوص رنگائی اور چھپائی کے دوران بے پناہ مایع فضلے کا اخراج ہوتا ہے۔ کیونکہ فضلے کے ٹریٹمنٹ کے لیے درکار وسائل مہنگے ہیں اس وجہ سے ان پر کام کیا ہی نہیں جاتا، اگر کہیں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب بھی کیے گئے ہیں تو عام طور پر انھیں استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کا مقصد عالمی خریداروں کو بس یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے صنعتکار کتنے سنجیدہ ہیں۔
چمڑے کی صنعت بھی پاکستان میں شدید آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں میں شامل ہے۔ چمڑا بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکل یورپ میں بنتے ہیں لیکن ان کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ شدید زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے نا صرف چمڑے کی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور بلکہ ملحقہ علاقوں میں بسنے والے علاقوں کے مکین بھی کینسر سے متاثر ہوتے ہیں۔