Pak Bharat Jang Aur Khud Kalami
پاک بھارت جنگ اور خود کلامی

پہلگام سانحہ افسوسناک تھا مگر یہ ایسا سانحہ نہیں تھا جس نے خطے میں کسی بڑی بحث کو جنم دیا ہو۔ انٹرنیشنل میڈیا بھی اسے سانحے سے زیادہ ایک واقعے کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا۔
یعنی! یہ سانحہ اُس رد عمل کے لیے بہت کم تھا جو مودی سرکار نے دیا۔
یہ بات بہت واضح نظر آئی کہ مودی سرکار کو بہانے کی تلاش تھی۔ بہانہ مل گیا تو جلدی میں اس کا حجم ماپنے کی بجائے مودی سرکار نے بڑے فیصلے کر لیے۔ ان فیصلوں نے خود مودی سرکار کو ایسے ایک موڑ پر لاکر کھڑا کر دیا جہاں سے آگے بڑھنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
سانحے اور رد عمل میں شعری تناسب قائم کرنے کے لیے مودی میڈیا نے بہت گرہیں لگائیں، مگر اس کوشش میں پوری غزل ہی تباہ کردی۔ مصرعے اٹھانے کے لیے جاوید اختر اور ریحان صدیقی بھی آ گئے، مگر بات نہیں بنی۔ شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی۔
یہ کام کرتے وقت میڈیا نے صرف دو چیزوں کا سہارا لیا۔ ایک جنگی جنون جو سر پہ سوار کیا ہوا تھا۔ دوسرا گریس، جو انہوں نے گلے کی غراریوں میں بھر دی تھی۔
میڈیا ذہانت سے بھی کام لے سکتا تھا مگر اس کے لیے دماغ چاہیے تھا۔ دماغ دفتر جاتے ہوئے کہیں راستے میں گر گیا تھا جو کسی چینل نے رپورٹ نہیں کیا۔ ایسی مارا ماری تھی کہ درست خبر چلانے پر کوئی آمادہ ہی نہیں تھا۔
جنون کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ للن ٹاپ چینل اور برکھا دت جیسے صحافی بھی فیک نیوز کے منہ زور ریلے میں بہہ گئے۔ خدا جانتا ہے میں تو روش کمار کے لیے بھی فکر مند ہوگیا تھا مگر خیر ہوگئی۔
پاکستان کے میڈیا میں حماقتیں ضرور دیکھی گئیں مگر جنگی جنون نہیں دیکھا گیا۔ فیک نیوز کا رجحان بھی یہاں کم رہا۔ کوئی فیک نیوز آئی بھی تو اس میں تاج محل اور قطب مینار کے ایڈریس تبدیل نہیں کیے گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فیک نیوز کے کارخانے چلانے والے صحافی فوج سے کسی بات پر ناراض ہیں۔ ان میں سے زیادہ ملک سے باہر ہیں۔ اس ساری صورت حال میں انہوں نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
ان کے تعلقات فوج سے خوش گوار ہوتے تو پاکستانی میڈیا بھی خوب مقابلہ کرتا۔ مگر مقابلے میں جیت کی کوئی گارنٹی پھر بھی نہیں دی جاسکتی تھی۔ جھوٹ کے چالیس کارخانے بھی کام پہ لگا دیے جائیں تو ایک ارنب گوسوامی کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ ارنب کے ساتھ میجر گورو آریا بھی شامل ہو جائے تو یہ دھنیے پہ پودینہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر بھی جنگی جنون نہیں دیکھا گیا۔ حالانکہ جنگ اور نفرت یہاں کے نصابوں، کتابوں فلموں ڈراموں، لٹریچر اور کاروبار کا لازمی حصہ ہے۔
اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔۔
پہلی: پاکستانی شہری پچھلے بیس سالوں میں جنگ کو فکشن کے علاوہ بھی دیکھ چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔
وہ لوگ اور خاندان اب بھی زندہ ہیں جو بارود کی بو اپنی سانسوں میں محسوس کرتے ہیں۔ انہیں جنگ سے نفرت ہوگئی ہے۔
دوسری: بم دھماکے لاشیں معذوریاں حادثے سانحے پولیس مقابلے ٹارگٹ کلنگ خون خرابے مار دھاڑ پکڑ دھکڑ ایمبولینس طیارے ہائی الرٹ آئی ڈی پی کیمپ اور ایمرجنسی جیسی چیزیں پاکستان میں معمول کی چیزیں رہی ہیں۔
اب تو ایسی جنگ کا سامنا ہے جس میں نفع نقصان سب کا برابر ہے۔ سو یہ جنگی ماحول کو بھی سہولت سے اپنی میمز میں پھونک رہے ہیں۔
ویسے بھی جنگوں میں نقصان کا اندیشہ انہیں کم ہی ہوتا ہے جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہ ہو۔ اس جنگ میں کسی نے کچھ کھونا ہے تو وہ صرف بھارت ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ مودی کی مسلط کردہ جنگ کا کئی طرح سے پاکستانی ملٹری کو ہی فائدہ تھا۔ اب جب جنگ کا آغاز ہوگیا ہے تو یہ فائدہ دو چند ہوگیا ہے۔
پچھلے دس پندرہ سالوں میں فوج اور عوام کے بیچ سیاسی محاذ پر مسلسل جنگ رہی ہے۔ اس جنگ میں ملٹری کو بدترین پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
عوامی بیانیہ 'قومی بیانیے' کو ہزیمت سے دوچار کرچکا تھا۔ کوئی منصوبہ اور کوئی دلیل ملٹری کے کام نہیں آرہی تھی۔ جنگ کے نتیجے میں ملٹری نے سیاست کا ہارا ہوا یہ محاذ ایک رات میں واپس لے لیا۔
فوج کی یہ سیاسی فتح اب بدقسمتی سے اس لیے بھی پائیدار رہے گی کہ وہ کامیاب دفاعی کارکردگی کا مظاہرہ کرچکی ہے۔
بھارت ایک بڑی معیشت ہے۔ اس کی فوج بھی بہت طاقتور ہے۔ مگر اس کا جنگی تجربہ پاکستان سے زیادہ نہیں ہے۔ بھارت تو معیشت کو بہتر کرنے کے زندگی میں اور بھی بہت کچھ کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے جنگ کے علاوہ کیا کیا ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کا تجربہ فقط روس، بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ مڈ بھیڑ کا رہا ہو۔ پاکستان تو مشرقی پاکستان، بلوچستان، کراچی اور فاٹا میں اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ کا ایک وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ بڑی طاقتوں کے ساتھ ڈبل گیم اور انتخابی انجینئیرنگ کا تجربہ اس کے علاوہ ہے۔
مودی سرکار کی طرف سے اب جنگ شروع ہوئی تو بھارت اور پاکستان کے بیچ اس جنگی تجربے کا فرق بہت واضح طور پر نظر بھی آ رہا ہے۔ بھارت کی طرف ڈرون طیارے، میزائل رافیل سب نظر آرہے ہیں، تیاری، جمع تفریق، ضرب تقسیم اور اسٹریٹجی کہیں نظر نہیں آرہی۔ پریس کانفرنس میں گفتگو سے زیادہ تھکاوٹ اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ اس پوری جنگ میں پہلی بار انٹرنیشنل میڈیا کو بھی جس چیز نے اپنی جانب متوجہ کیا ہے وہ ذلیل ہوتا ہوا رافیل ہے۔ بیچارے رافیل کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور اس رویے کا ہے جس میں جنگی جنون تو آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور پروفیشنل ازم زمین پر پڑا ہوا ہے۔
اس جاری ویک اینڈ پر بھی یورپ میں پوپ کارن آرڈر کر لیے گئے تھے۔ مگر اب نیٹ فلکس پر سیزن دیکھنے کی بجائے وہ مغربی اور چینی ہتھیاروں کا مقابلہ دیکھ رہے ہیں۔ مودی سرکار کا تماشہ انہیں بیچ بیچ میں اشتہار کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ اشتہار اتنے مزے کا ہے اسے وہ skip کرنے کے بجائے پورا دیکھتے ہیں۔
جو سب سے مشکل سوال اس وقت درپیش ہے وہ یہ ہے کہ مودی سرکار دنیا کے پاس اور خود اپنی جنتا کے پاس کس منہ سے جائے؟ جنگ کا دورانیہ اسی سوال کے جواب پر منحصر ہے۔
مسعود اظہر یا حافظ سعید میں سے کوئی ایک مار دیا گیا ہوتا تو اب تک یہ جنگ ختم ہو چکی ہوتی۔ مودی سرکار کو ایسی ایک کامیابی ہر صورت میں چاہیے جس کی کوئی علامتی حیثیت ہو۔
ایک بڑی جنگی تباہی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ جواد نقوی اور مفتی عبدالرحیم روز نماز فجر کے بعد دعا کروائیں کہ خدایا مودی سرکار کو کوئی کامیابی دے ہی دے۔ اگر دعا بروقت قبول نہیں ہوتی تو پھر پاکستان مہربانی کرتے ہوئے مولوی مسعود ازہر کو لاپتہ افراد والے سیل میں بھیج کر کہہ دے کہ وہ پہلے ہی حملے میں مارا جا چکا ہے اور یہ کہ کراچی کے علاقے چوبرجی، باغبان پورہ، کاہنہ، ٹھوکر نیاز بیگ اور جوہر ٹاون مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ بھارتی آبدوزیں لاہور کی سمندری حدود میں داخل ہوچکی ہیں۔

