Nagarparkar Ka Mandir
نگر پارکر کا مندر

ہم کارونجھر کے پر آسیب پہاڑی سلسلوں کے پاس سے گزرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔ یہ ناچتے گاتے موروں کی بستی ہے جسے کاسبو کہتے ہیں۔ اس کی دوپہر میں اتنا سناٹا ہے کہ دوسری طرف گزرتی ہوئی گائے کی دھب دھب یہاں سنائی دیتی ہے۔ اب نگر پارکرکے صدیوں پرانے مندر میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں ہر اینٹ کے پاس سنانے کو ایک کہانی ہے۔
تھر کی مٹی سے بنے بوڑھے بھگت صحن میں دائرہ بنائے بیٹھے ہیں۔ تار ستار چھیڑے ہوئے ہیں، گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور لرزتی ہوئی کڑک آواز میں بھجن گا رہے ہیں۔ جیسے گلے میں گھنٹیاں پاؤں میں جھانجر باندھے کچھ اونٹ صحرا میں مناسب رفتار سے بھاگے چلے جا رہے ہوں۔
پجاری مندر کا بھاری گھنٹا بجاتا ہے تو احاطے میں دانہ چگتے مور یکدم ٹھٹھک جاتے ہیں اور پروں کو تھرتھراتے ہوئے بیک آواز کوئی گیت چھیڑ دیتے ہیں۔ چپ ہوتے ہیں تو دیر تک ان کی آواز کسی بھولی بسری دعا کی طرح مندر میں گونجتی رہتی ہے۔
روہیڑو اور نیم کی جڑوں میں دبی پرانی منتیں اور مرادیں بھی سرسرانے لگتی ہیں۔ کبوتر گردنیں اکڑا کر حیرت بھری آنکھوں سے یہاں وہاں دیکھتے ہیں۔ سمت تلاش کرتے ہیں کہ سر سراہٹ کہاں سے آ رہی ہے، کس نے پکارا ہے۔
روہیڑو کسی بات کا گواہ بنتا ہے تو اس کی چھال پر ایک نیا نشان ابھر آتا ہے۔ مندر میں کھڑے روہیڑو کا یہ گھنا درخت گہرے نشانوں سے بھرا ہوا ہے۔ کئی نسلوں کا یہ خاموش گواہ ہے۔ تھر کے سینے پر جب سرحد کھینچی جا رہی تھی تو یہ چھپ چاپ سب دیکھنے پر مجبور تھا۔ اس کی چھال پر سب سے گہرا نشان تبھی کا ہے۔
کتنے راز ہیں جو اس روہیڑو کی چھال میں بند ہیں۔ کتنے خواب ہیں جو اس کی شاخوں پر جھول رہے ہیں۔ کتنی دعائیں ہیں جو یہاں ٹھہری ہوئی ہیں۔ کتنی کہانیاں ہیں جو پڑے پڑے یہاں دم توڑ گئی ہیں۔
مندر پہ سایہ کرنے والے روہیڑو کو کچھ دیر مسلسل دیکھو تو وقت تھم سا جاتا ہے۔ گئے وقتوں کے وہ سارے خواب شور کرنے لگتے ہیں جو پچھلی نسل کے بزرگ یہاں رکھ گئے تھے۔
اچانک نیم کی پیٹھ سے ایک ہوشیار گلہری پھرتی سے اترتی ہے اور پاس آکر رک جاتی ہے۔ پھٹی آنکھوں سے مجھے جلدی میں پرکھتی ہے اور لپک کر واپس نیم پر چڑھ جاتی ہے۔ نیم کو اس گلہری نے کیا بتایا ہوگا؟
کیا بتایا ہوگا کہ بھگت خاموش ہو جاتے ہیں۔ ٹھنڈی سی ہوا کی سنسناہٹ کے ساتھ نیم کے پتے سرسرانے لگتے ہیں۔ ایک پل کے لیے ایسا لگتا ہے کہ نیم میں بسی ہوئی کئی نسلوں کی دعائیں سانس لے رہی ہیں۔ شاید قبول ہونے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہیں۔
نارنجی پگڑی والے پجاری کے کہنے پر بھگت پھر سے تار کھینچتے ہیں گلے جگاتے ہیں۔ سادھو دیپ جلاتا ہے پجاری پرساد بانٹتا ہے۔ اگر بتی کی مہک سندور اور مٹی کے ساتھ مل کر ہوا میں گھل جاتی ہے۔ رنگ برنگے گھاگروں میں کچھ لڑکیاں پلو سنبھالے مندر کی سیڑھیاں چڑھنے لگتی ہیں۔
مندر کا گھنٹہ بجتا ہے۔ مور ناچتے ہیں، کبوتر غٹر غوں بتیاتے ہیں اور ہوا میں کبیر کے بول گونجنے لگتے ہیں۔
"من لاگو میرو یار فقیری میں "
جب سب مگن ہو جاتے ہیں تو رنگ برنگے گھاگروں والی لڑکیاں اپنی کہانی چپکے سے دیوی کے قدموں میں رکھ دیتی ہیں۔ کوئی جواب سنے بغیر لوٹ جاتی ہیں۔
ایک مٹھیارن کی منتر پڑھتی ہوئی بڑی سی آنکھیں پلٹ کر مندر کی طرف دیکھتی ہیں تو دو چراغ جل اٹھتے ہیں۔ آخری بار یہ پر اسرار سی آنکھیں مندر کے دروازے سے نیم مسکرانہ دیکھتی ہیں تو دو چراغ اور جل جاتے ہیں۔
دہلیز پار ہو جاتی ہے اور دو چراغ لرزتے ہوئے کاسبو کی بھید بھری گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ روہیڑو کی چھال میں ہلکا سا ایک نشان اور ابھر آتا ہے۔