Imam Bhi Chale Gaye
امام بھی چلے گئے

امام چلے گئے۔ فکری رنگا رنگی اور انسانی تنوع کو دنیا کا حسن کہنے والے امام چلے گئے۔ ان کی بات تعلیم سے شروع ہوتی تھی اور تعلیم پر ہی ختم ہوتی تھی۔ انہوں نے سمجھایا، تعلیم محنت اور صلاحیت نہ ہو تو کہیں پہنچانے میں رنگ اور عقیدہ تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔
انسانی خدمت اور تعمیر و ترقی کے جو منصوبے وراثت میں ملے، امام نے انہیں خوب نبھایا۔ سچ یہ ہے کہ ان منصوبوں کو انہوں نے ایک بڑی اور ہمہ جہت فلاحی تحریک میں بدل دیا۔
امام کی اس تحریک نے عارضی، ماورائی اور خیراتی رویے تشکیل دینے کی بجائے وقار، استحکام اور پائیداری کو رواج بخشا۔
یعنی!
امام نے کسی پیاسے کو کبھی اس لالچ سے پانی نہیں پلایا کہ بدلے میں وہ "ہدایت یافتہ" ہوجایے۔ اس نیت سے پلایا کہ اس کی پیاس بجھ جائے۔ ساتھ یہ سوچا کہ دوبارہ جب اسے پیاس لگے گی تو کیا کرے گا؟ آو اس کے لیے باوقار منصوبہ بندی کریں!
امام سازشی سرگرمیوں سے سات پانی دور رہے، تعمیری منصوبوں میں ہر دم شامل رہے۔ جس منصوبے کی بھی انہوں نے بنیاد رکھی اس میں عورت کا حصہ برابر رکھا۔ کبھی تو عورت کے حصے میں اضافہ بھی کیا۔
امام کے فرامین میں ہم آہنگی کا تکرار اور رواداری پر اصرار محض دکھلاوے کے لیے نہیں تھا۔ سچ یہ ہے کہ امن اور خوش حالی کے عدسے لگائے بغیر وہ دنیا کو دیکھتے ہی نہیں تھے۔
امام نے پیرو کاروں کو ایسا ماحول دینے سے صاف گریز کیا جس میں اپنے مسلک سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے دوسرے مسلک سے نفرت کرنی پڑے۔ تکفیریت کے گھناؤنے کھیل کی بجائے انہوں نے تکثیریت (pluralism) کو پروان چڑھایا۔
امام نے پیرو کاروں کو یہ مزاج دیا کہ سیاست صرف انسانوں سے رابطے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ خدا سے رابطے کا ذریعہ فقط عبادت ہوتی ہے اور یہ کہ عبادت ادا کی جاتی ہے جتلائی نہیں جاتی۔
امام کی گفتگو سننا روحانی سی مشق لگتی تھی۔ ان کی آنکھیں اشتعال سے پاک صاف تھیں۔ گفتگو میں شکایتوں کے دفتر نہیں کھلتے تھے، امید اور امکان کی ایک وسیع دنیا کھلتی تھی۔
کسی بھی معاملے پر امام سے کبھی سوال ہوا تو فتویٰ دینے کی بجائے انہوں نے فقط رائے دی۔ وہ بھی اس احساس کے ساتھ کہ یہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔
دھیمی سی ایک مسکراہٹ دائم ان کے چہرے پر رہتی تھی۔ سوال جیسا بھی ہو موضوع جو بھی ہو، ایک حد سے ان کی آواز اوپر نہیں جاتی تھی۔
ان کی خاموش تصویر دیکھ کر بھی دل کو ایک تسلی سی ہوتی تھی۔ پانی کے ٹھنڈے اور صاف چشمے جیسے محسوس ہوتے تھے۔
امام کا ٹائٹل انہیں جچتا بھی تھا۔ جو اپنے لیے اپنی اولاد کے لیے چاہا وہ سب کے لیے چاہا۔
کبھی امام کا مسلکی پیروکار نہیں رہا، مگر گلوبل انسانی تہذیب میں امام کو اپنا نمائندہ محسوس کیا۔ گاہے اپنا امام محسوس کیا۔۔
کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا چاہیے مگر لوگ چلے ہی جاتے ہیں۔ امام بھی چلے گئے۔
مکالمے، منطق، خرد افروزی، آرٹ، کلچر، تحقیق، مطالعے اور گلوبلائزیشن پر یقین رکھنے والے امام چلے گئے۔