Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farnood Alam
  4. Fareed Ayaz Ki Gayeki

Fareed Ayaz Ki Gayeki

فرید ایاز کی گائکی

فرید ایاز کے فن پر کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم کون سے سُروں والے تال میں جنے گئے تھے جو کسی گلوکار کے فن پر بیٹھ کر بات کریں گے۔ ہاں دنیا میں مناسب سے درجے پر آرٹ کا مزا لینے والی ایک کمیونٹی بستی ہے، اس کمیونٹی سے ہمارا کچھ تعلق ہے۔

فرید ایاز محض بڑے باپ کی اولاد نہیں ہیں۔ وہ بڑے باپ کی بڑی اولاد ہیں۔ پُرکھوں نے جو امانت انہیں سونپی تھی، انہوں نے زندگی بھر اسے نبھایا اور خوب نبھایا۔ ان کا فن ہر طرح سے من کو بھاتا ہے۔ مگر اللہ جانتا ہے، شعر کی تشریح سے بہت کوفت ہوتی ہے۔

در اصل شعر کا اپنا والا مفہوم بتاکر آپ بات مکمل کر دیتے ہیں۔ شعر وہی حسین ہے جس میں بات مکمل نہیں ہوتی۔ اس کا کینوس کھلا ہوتا ہے، اس لیے ہر شخص اس میں اپنے حصے کے رنگ بھر پاتا ہے۔ جب آپ تشریح کرتے ہیں تو شعر کے آسمان کو محدود کر دیتے ہیں۔ سامع جو مزے سے یہاں وہاں اڑ رہا ہوتا ہے، اسے یکلخت زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ کہانی یکسر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد گایا بھی تو کیا گایا اور سنایا بھی تو کیا سنایا۔

محفل جب موسیقی کی ہے تو پھر آپ "مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ" کے ساتھ گائیکی والا رویہ ہی برتتے جائیں۔ طبلہ اور ہارمیونیم کے تال میل کو دھم سے روک کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر لیکچر دینا مت شروع کریں۔ فیض نے جب خود سیاست، تاریخ، سقوط، ڈھاکہ، مجیب، نیازی، سازش، اکہتر، فوج، مکتی باہنی، الشمس و البدر جیسی لفظیات سے بچ بچا کر نظم کے کینوس کو کھلا رکھا ہے، تو آپ بھی گفتگو فرماکر اس کینوس کو محدود نہ کریں۔

آپ کیوں چاہتے ہیں کہ محفل میں بیٹھا ہوا ہر شخص خود کو مغربی پاکستان تصور کرے اور نظم میں محبوب کی جگہ کسی اور کو بٹھانے کی بجائے ڈھاکے کو ہی بٹھاکر کھانا ہضم کرے۔

محفل میں کوئی بھی شخص شعر کا ڈھنگ سیکھنے، غزل کا فن سمجھنے اور قوالی کے رمز جاننے کے لیے نہیں آتا۔ ایسا کچھ جاننا ہو تو وہ کمبل میں منہ دے کر یوٹیوب پر احمد جاوید کے لیکچر سن لے گا۔ یہاں وہ آرٹ اور جمالیات کا لطف لینے آتا ہے۔ وہ اپنے ذہن میں آپ کے حوالے سے، موسیقی، غزل، شعر اور شاعر کے حوالے سے محدود سا ہی سہی مگر ایک خاکہ لے کر آتا ہے۔

فن کارانہ تہذیب یہی ہے کہ اس کو اس خاکے کے ساتھ یہاں جینے دیں۔ اچانک سب روک کر اس کے خاکے پر تشریح کی لال پچکاری مار دینا بد اخلاقی ہے۔

یہ مشکل تب بھی پیش آتی ہے جب کوئی دوست محفل میں بلوٹوتھ سے کنیکٹ ہوکر آپ کو کوئی کلاسیکی غزل سنانے لگ جائے۔ آپ موسیقیت اور شعریت کا مزا لینا چاہ رہے ہوں گے یہاں سردار تشریح سنگھ آپ کے منہ گھس گھس کر پہلے سمجھائے گا کہ راگ کون سا ہے اور پھر بتائے گا کہ شعر کا مطلب کیا ہے۔

گائیک دوسرے مصرعے سے ہوکر اگلے شعر پر پہنچ چکا ہوتا ہے یہ بیٹھ کر پچھلا والا سمجھا رہا ہوتا ہے۔ یہ پچھلا سمجھا چکتا ہے تو اگلے کے لیے موبائل اٹھا کر غزل کو واپس پچھلے شعر پہ کھینچ لاتا ہے۔ اب پھر سے پورا شعر سنو تاکہ یہ پچھلے شعر کے مصرع ثانی کی بھی تشریح کر سکے۔

اچھا آپ اگر اس کی تشریح پر مناسب رد عمل نہ دیں تو وہ پھر ایک اور طرح سے تشریح شروع کر دیتا ہے۔ آپ کا ریسپانس اب بھی پھیکا ہو تو دل ہی دل میں آپ کو "چوتیا" کہہ کر اگلے شعر پہ آجاتا ہے کہ یہ والا تو تجھے سمجھ نہیں آرہا۔ ابے سالے شعر سمجھ آرہا ہے مگر تیری اس تشریح میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

تب تو خدا کا غضب ہی ہو جاتا ہے جب ساتھ والا شعر کے الفاظ، تشبیہ اور استعارے کو اپنے اصل معنوں میں لینے والا رویہ رکھتا ہو۔ ایسے شخص نے اگر تین جام بھی چڑھا رکھے ہوں تو معاملہ پھر سوا ہے اور اگر وہ شخص نظریاتی بھی ہو؟ پھر تو الامان ہے اور توبہ ہے۔

ایسے لوگ گالی کا مزا لینے سے بھی محروم رہتے ہیں۔ گالی بھی سنتے ہیں تو اسے لغوی اور نظریاتی معنوں سے گزار کر اپنے دکھوں میں اضافہ کر لیتے ہیں۔

خیر! شعر اس کہانی جیسا ہوتا ہے جس کے اختتام پر کہانی کار نتیجہ یا مقصد بیان نہیں کرتا۔ نتیجے کا رنگ بھرنے کا اختیار وہ قاری کو دے دیتا ہے۔ ہر قاری اپنے پس منظر اور اپنے تجربے کے ساتھ کہانی سے خود کو کنیکٹ کرتا ہے اور نتیجہ نکالتا ہے۔ آرٹ مووی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کا ڈائیلاگ نامکمل ہوتا ہے اور اینڈ اُس کا کلوز نہیں ہوتا۔

مشاعرے میں شاعر جب اپنی غزل بھی سناتا ہے تو بس غزل ہی سناتا ہے۔ وہ غزل کا پروفیسر بن کر تقطیع نہیں پڑھاتا۔ اس کے ایک شعر پر مشاعرے میں پچاس لوگ واہ واہ کرتے ہیں۔ پچاس کے پچاس لوگوں سے پوچھ لیں کہ اس شعر کا مطلب اور مفہوم کیا تھا؟ تقریباََ ہر شخص کے مفہوم کا رنگ دوسرے شخص کے مفہوم کے رنگ سے مختلف ہوگا۔ یہاں تک کہ شاعر کے اپنے رنگ سے بھی اس کا رنگ مختلف ہوگا۔

یہی خوبی ہے۔ یہی خوبی ہے شعر سے پھوٹنے والے رنگ کی کہ ہزاروں لوگوں میں بٹ جائے اور ختم نہ ہو۔ اگر چاہو کہ ختم ہوجائے، تو بس لفظ کے لغوی معنی سے چمٹ کر شعر کی تشریح بیان کر دو۔ لو ختم!

مشاعرے میں شاعر غزل سنا رہا ہے۔ ہر شعر پر برابر داد ملتی چلی جارہی ہے۔ اب آیا وہ شعر جو خود شاعر کی نظر میں حاصل غزل شعر ہے، مگر جب اس نے پڑھا تو سبحان اللہ کی تین ساڑھے تین آوازیں ذرا سی اٹھیں اور بیٹھ گئیں۔

شاعر خود حیران سا یا پریشان سا ہوجاتا ہے کہ شعر پہنچا نہیں، مگر اس کے باوجود شاعر کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ یہ لوگ چغد ہیں، رکو میں ذرا انہیں تشریح کرکے سمجھا بھی دوں کہ یہ شعر کتنا بڑا تھا۔ وہ معلم یا نقاد بننے کی بجائے اپنے شاعرانہ منصب کو برقرار رکھتا ہے اور چپ چاپ اگلے شعر کی طرف نکل جاتا ہے۔

شعر کی اپنی اخذ کردہ تشریح کو پورے ماحول پر چھڑکنا ایسا ہے جیسے مصور کی پینٹنگ کے ساتھ ایک پیراگراف لکھ کر وضاحت کردی جائے کہ یہ فن پارہ تخلیق کرتے وقت مصور کے دل میں کیا مچل رہا تھا اور دماغ میں کیا چل رہا تھا۔

بہت کچھ بولتی ہوئی ایک تصویر جب لفظوں میں ڈھل جاتی ہے تو وہ چپ ہو جاتی ہے۔ اب وہ ایک مکمل بات بن جاتی ہے جس کے آگے فل سٹاپ لگ چکا ہوتا ہے۔ ایسی بات، جس کا تعلق اب دو چار لوگوں سے ہی بنتا ہے۔

آرٹ کی دنیا میں illusion کی اہمیت ہے۔ شعر کسی محلے کا معلوم مکان نہیں ہوتا جہاں گوگل میپ کی مدد سے آپ کو پہنچنا ہوتا ہے۔ شعر بڑا سا ایک جنگل ہوتا ہے جہاں بھٹکنا ہوتا ہے۔ یہ جنگل کی خوبصورتی ہے کہ گوگل میپ وہاں کام نہیں کرتا۔

Check Also

Achi Zindagi

By Javed Chaudhry