Bilawal Bhutto Aur Shashi Tharoor Wale Mawazne
بلاول بھٹو اور ششی تھرور والے موازنے

یہ دونوں صاحبان عالمی سطح پر حالیہ جنگ کے پس منظر میں بیانیہ سازی اور سفارت کاری کے لیے اتر رہے ہیں۔
شعوری اور غیر شعوری ففتھیوں نے تقابل کرتے ہوئے بلاول بھٹو کو صفر سے ضرب دیکر سیدھا سوشل میڈیا کے نالے میں پھینک دیا ہے۔ ششی تھرور کو قطب مینار پہ چڑھا کر نیچے سے سیڑھی ہٹا دی ہے۔
تقابل کچھ ایسا برا بھی نہیں ہے، مگر کیا ہرج ہے اگر معاملے کو اس کے پس منظر میں بھی دیکھ لیا جائے۔
مودی سرکار کے سیاسی مفادات مذہبی منافرت اور جنگی جنون سے وابستہ ہیں۔ حالیہ جنگ نے بھی در اصل مودی سرکار کے محدود سیاسی مفادات سے ہی جنم لیا۔
پہلگام سانحہ ہوگا کسی کے لیے سانحہ، مودی سرکار کے لیے یہ ایک موقع تھا۔ مگر یہ موقع مودی کے لیے ٹھنڈا تنور ثابت ہوگیا۔
بیانیے کی بہت زیادہ پھونکیں ماری گئیں مگر تنور ٹھیک سے گرم نہیں ہوسکا۔ مگر جتنا گرم ہوا تھا اس کو آخری موقع جانتے ہوئے روٹیاں لگادی گئیں۔ نتیجہ؟ روٹیاں لٹک کر اپنی ہی آگ میں گر گئیں۔
اس اندھی جنگ کے آغاز پر ہی مودی سرکار کے ساتھ کھڑے ہوکر ششی تھرور نے مایوس کر دیا تھا۔ کانگریس کی سیاسی اپروچ اور تنظیمی ڈسپلن کو تو انہوں نے قربان کیا ہی کیا، اپنی کتابوں پر سے بھی جوتوں سمیت گزر گئے۔
پھر سیز فائر ہوگیا۔
مودی سرکار نے سات بیانیہ ساز گروہ تشکیل دے دیے۔ بتایا گیا کہ یہ گروہ زمین نامی سیارے کے گرد چکر لگائیں گے اور مودی سرکار کے جنون کے لیے جواز تراشیں گے۔
ایک اہم گروپ کی سربراہی کے لیے مودی نے ششی تھرور کو چن لیا ہے۔ حالانکہ کانگریس نے مودی کو جو نام تجویز کیے تھے ان میں ششی تھرور کا نام نہیں تھا۔
در اصل مودی سرکار ڈاکٹر ششی تھرور کو ایک زوردار تھپڑ بناکر جنگ مخالف حلقوں کے منہ پر مارنا چاہتی تھی۔
اب مایوسی اس بات پر نہیں ہے کہ مودی نے ششی تھرور کو تھپڑ بنا لیا۔ مایوسی اس بات پر ہوئی کہ ششی تھرور نے تھپڑ بننا گوارا بھی کر لیا۔
ششی تھرور کی کتابیں ہی اگر ششی تھرور کا پروفائل ہیں، تو پھر بتائیے کہ موجودہ ششی تھرور کو اُن کی اپنی پروفائل میں کہاں تلاش کیا جائے؟
بلاول بھٹو سیاسیات میں گریجویٹ ہیں، سیاست ہی کر رہے ہیں، سیاست دانوں کی اولاد ہیں، چار مرتبہ اقتدار میں رہنے والی ایک مانی جانی جماعت کے سر براہ ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ اس پروفائل میں بلاول کو ڈھونڈنے میں کوئی دقت ہے؟
پھر بلاول ایسے ملک کی نمائندگی کے لیے اتر رہے ہیں جو حالیہ جنگ میں دفاعی پوزیشن پر کھڑا ہوا ہے۔ ششی تھرور انتہا پسند گروہوں کے جنگی جنون سے جنم والی بے وقت قسم کی جنگ کا دفاع کرنے اتریں گے۔
خیر!
آج بلاول بھٹو وزیر خارجہ نہیں ہیں۔ مگر حالیہ جنگ کے دوران خارجہ کے محاذ پر سب سے نمایاں کون نظر آیا ہے؟
مجھے بالکل اندازہ ہے کہ مان لینے میں شعوری اور غیر شعوری ففتھیوں کو ذرا دقت ہوگی، حقیقت مگر یہی ہے کہ خارجہ کے محاذ پر بلاول کی چھاپ اپنی عمر اور وزارت کے دورانیے سے زیادہ ہے۔
اس حالیہ جنگ کے دوران عالمی میڈیا اور دوسرے انٹرنیشنل فورمز نے بلاول بھٹو کو خارجہ امور کے ایک ماہر کی طرح ہی ٹریٹ کیا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ وہ جب کبھی عالمی فورمز پر موجود ہوتے ہیں، ان کی گفتگو سے ذمہ داری کا ایک احساس جھلکتا ہے۔
امریکا میں عالمی فورم پر بیٹھ کر سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دورہ روس کا دفاع وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے ہی کیا تھا۔ یہ دفاع ان سے ذمہ داری کے احساس نے ہی کروایا تھا۔
یہ توفیق اسی کو ملتی ہے جو لمحے کو سمجھتا ہو۔ اسے ادراک ہو کہ اس وقت مجھے جماعت کی نمائندگی کرنی ہے یا ملک کی نمائندگی کرنی ہے۔
ذمہ دار لوگوں کو یہ ادراک تب بھی ہوتا ہے جب وہ پارلیمان یا کابینہ کے ممبر نہیں ہوتے۔ غیر ذمہ دار لوگوں کو تب بھی نہیں ہوتا جب وہ ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہیں۔
لوگ تو بلکہ آرمی چیف اور چیف جسٹس ہوتے ہوئے بھی قومی ذمہ داری کے احساس سے مکمل عاری ہو جاتے ہیں۔
بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ چھوٹا منہ بڑی بات، مگر کہہ لینے دیں کہ بطور وزیر خارجہ بلاول بھٹو میں زیادہ ٹھہراؤ دیکھا گیا ہے۔
نمائندگی کی سائنس کسی پی ایچ ڈی کی ڈگری یا تصنیفات سے بھی تعلق رکھتی ہوگی، مگر سب سے بڑھ کر اس کا تعلق ہے ایک ایٹیٹیوڈ کے ساتھ۔ ایٹیٹیوڈ کا یہ نشان بھی بلاول کی پروفائل میں بہت نمایاں ہے۔

