Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، توبہ
جرگہ جس معاملے کو لے کر اٹھا ہے، اس کا تعلق صدیوں کے سفر سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق اس خسارے اور احساس سے ہے جو پچھلے بیس برسوں میں پشتونوں کو ہوا ہے۔
چنانچہ! ان بیس سالوں کے ہی پس منظر میں پشتون بنیادی طور پر دو چیزیں مانگ رہے ہیں۔ امن کی بحالی اور جنگی کاروبار کا خاتمہ!
مگر! معاشرے کے ذہین افراد نے تجویز یہ دی ہے کہ خارج میں اس مسئلے کی وجہ تلاش کرنے کی بجائے پشتونوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ٹھیک سے اپنا احتساب کرنا چاہیے اور پھر اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
میں بطور پشتون یہ مانتا ہوں کہ پشتون جاہل گنوار ہیں۔ بے سلیقہ و بے ہنر ہیں۔ دماغ کے اخروٹ اور دل کے چلغوزے ہیں۔ دنیا سے پیچھے اور آخرت سے آگے ہیں۔ سیاست و قیادت ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
یہ سب مانتے ہیں، اور یہ بھی مانتے ہیں کہ پشتونوں کو خود اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ مگر کیا اس بات کی گنجائش نکل سکتی ہے کہ اصلاحی پروگرام کچھ وقت کے لیے ملتوی کردیا جائے اور پہلے زندگی کا سوال نمٹا لیا جائے؟
یا اگر یوں کر لیا جائے کہ اصلاحی پروگرام بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے مگر بد امنی سے جڑا سوال بھی یہ اونچے سُروں میں ریاست کے سامنے رکھتے رہیں؟ کیونکہ یہ ذرا مشکل ہو جائے گا کہ فوری طور پر جو زندگی کا سوال درپیش ہے اس کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور پہلے مہاتما گوتم بدھ کو ہائیر کرکے اپنی اصلاح کا عمل شروع کردیا جائے۔
اصلاحی پروگرام کو موخر کرنے کی اگر آپ اجازت دیدیں تو پھر میں آپ کو مزے کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ بدامنی کے خاتمے کے حوالے سے جو پشتونوں نے جرگے والا قدم اٹھایا ہے، یقین مانیں یہ آپ ہی کی تجویز پر اٹھایا ہے۔ جھوٹ بولوں کوا کاٹے!
آپ ہی نے کہا تھا ناں کہ ریاست تمہیں استعمال کرتی ہے، یہ اہم سوال نہیں ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ تم استعمال ہی کیوں ہوتے ہو۔ تم خود کچھ کیوں نہیں کر لیتے؟
اس سوال کے جواب میں پشتونوں نے پہلے سوچا کہ تعلیم بالغاں کا سلسلہ شروع کردیا جائے، مگر انہیں لگا کہ اس طرح وقت ضائع ہوجائے گا۔ انہوں نے بہتر جانا کہ وہ ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دے کر فوری طور پر خود ہی کچھ کرنے کی کوشش کرلیں۔
پہلی کوشش کے طور پر انہوں نے پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اس طرح سے یکجا کیا ہے کہ وہ دھڑے بھی باہر نہ رہ پائیں جو جنگی انڈسٹری لگانے کے لیے ریاستی اشرافیہ کو فری سبیل اللہ زمین فراہم کرتے تھے۔
ان کے اتفاق رائے کے ساتھ جو فیصلے کیے گئے ان میں سب بنیادی فیصلہ ہی یہ ہے کہ مسلح جتھوں کو دو ماہ کے اندر علاقے چھوڑنے ہوں گے، یا پھر توبہ تلا کرکے امن کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہی بنیادی مطالبہ اور کوشش ہے باقی سب فسانہ ہے، حربہ ہے اور زیب داستان ہے۔
اب ظاہر ہے انتہا پسند پشتونوں کو ریاست کا آلہ کار بننے میں دقت تو پیش آئے گی۔ ریاست کو انڈسٹری کے لیے مفتے کی زمین پکڑنے میں بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال کو سیکیورٹی سٹیٹ کیسے گوارا کرے گی؟
سو اس بات کا امکان بڑھ جائے گا کہ اشرافیہ جرگے اور سٹیٹ کے بیچ ایک تصادم تخلیق کرے۔ تصادم کا ملبہ جرگے پر ڈال کر جذباتی بیانیہ مرتب کیمرے اور بتایمئے کہ دیکھو ثابت ہوگیاکہ جرگہ پاکستان کے خلاف ایک عالمی سازش تھی۔
اس بات کا مجھے دل سے یقین ہے کہ ذہین لوگ ناگمان کا ایک لمبا چکر کاٹ کر آئیں گے اور انجام کار ریاستی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔
لیکن ایک بات کا میں یقین دلاتا ہوں۔ سٹیٹ پراپیگنڈا کتنا ہی کاٹ دار ہو، پشتون جرگہ آپ کی دی ہوئی تجویز پر عمل سے اب بالکل باز نہیں آئے گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ ذہین لوگوں کی باتوں میں ایک بار آجائیں تو پھر خدا ہی انہیں نکالے تو نکالے، بندے دی بس دی گل تے نئیں۔ اجڈ جاہل ایہو جیے ای ہوندے نیں!