Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Zakir Ya Jazbat Farosh?

Zakir Ya Jazbat Farosh?

زاکر یا جزبات فروش؟

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ایامِ عاشورہ میں کوئٹہ کی ایک امام بارگاہ جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ تجربہ کئی غیر روایتی مناظر اور نئے مشاہدات سے بھرپور تھا۔ امام حسینؑ کے جنازے کی "تصوراتی علامت" کو خون آلود کفن کے ساتھ گلیوں میں اٹھانا اور زاکرین کا جذباتی خطبہ جس میں عقل، تاریخ اور توازن کہیں گم دکھائی دیے۔ یہ سب نہ صرف دل کو بوجھل کر گیا، بلکہ کئی سوالات ذہن میں چھوڑ گیا۔

عقیدت اپنی جگہ مگر جب عقیدہ جذبات کی تجارت بن جائے اور غلو، حقیقت پر حاوی ہو جائے تو روح زخمی ہوتی ہے، دین کا چہرہ دھندلا جاتا ہے۔ بلاشبہ حضرت امام حسینؑ اور اُن کے اہلِ خانہ کی قربانی، صبر، استقامت اور حق پر ڈٹ جانے کی وہ لازوال داستان ہے جو رہتی دنیا تک کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔

کربلا صرف تاریخ کا باب نہیں، یہ ہر اُس دل کے اندر دھڑکنے والا درد ہے جو حق، حریت اور وفا کو سمجھتا ہے اور اِس سے قبل یقیناً آپ سب نے امام حسینؑ کی قربانی پر بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا، کئی کالمز، کئی تقاریر اور کئی آنسوؤں سے تر محفلیں دیکھی ہوں گی۔ لیکن آج، میں اِس عظیم قربانی کے پس منظر میں ایک ذاتی مشاہدہ آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جو شاید عام روایتی باتوں سے کچھ مختلف ہو۔

میرا امام بارگاہ جانے کا سبب دل میں عشقِ اہلِ بیتؑ کی وہ روشنی جو برسوں سے روشن ہے اور وہ اِن ایام میں کچھ اور ہی شدت اختیار کر لیتی ہے۔ محرم الحرام کا چاند کیا نکلتا ہے، دل کربلا کے خیموں کی طرف لپکنے لگتا ہے۔ میرا تعلق چونکہ اہلِ سنت مکتبِ فکر سے ہے، اس لیے مجالسِ عزاء اور امام بارگاہوں کی فضا میرے لیے ایک نیا تجربہ تھی لیکن دل میں ہمیشہ ایک تڑپ رہی، اتحادِ اُمت کی۔ یہ وہ خواب ہے جس کے بیج میرے دل میں بچپن سے بوئے گئے تھے اور آج بھی اس خواب کے سائے میں دل چاہتا ہے کہ ہم سب مل کر "امتِ واحدہ" بن جائیں۔

خیر 9 محرم کے دن صبح کے وقت ایک مختصر سا دورہ کیا، خاص طور پر ہزارہ ٹاؤن کی جانب، کئی امام بارگاہیں دیکھیں مگر چونکہ مجالس زیادہ تر رات کے وقت ہوتی ہیں، اس لیے دن میں بازار کی راہ لی۔ رات دس بجے کے قریب دوستوں کا پروگرام بنا اور ہم روانہ ہوئے، شہر کی گلیاں سنّاٹے میں ڈوبی تھیں، سڑکیں بند، راستے مفلوج اور موبائل نیٹ ورک مکمل طور پر معطل۔ ایسا لگتا تھا جیسے شہر نے سانس لینا چھوڑ دیا ہو۔

یہ کیفیت کسی ایک مکتبِ فکر کی وجہ سے نہیں، چاہے جلوس اہلِ تشیع کا ہو یا اہلِ سنت کا، جب عبادت عوامی زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے:

کیا یہ دین کا پیغام ہے؟ کیا یہ حسینؑ کی تعلیمات میں سے ہے؟ دین تو آسانی کا نام ہے، نرمی، سہولت اور احترامِ خلق کا پیغام مگر ہم نے اسے تنگی، اذیت اور زحمت میں کیوں بدل دیا؟ کیا بہتر نہ ہو کہ عبادات کے لیے کوئی مخصوص میدان، کوئی محفوظ مقام مختص کیا جائے؟ جہاں ذکر بھی ہو، اشک بھی بہیں اور عام شہری بھی سکون سے جی سکیں۔ اگر کسی کی عبادت کسی دوسرے کے لیے اذیت بن جائے، تو وہ عمل، چاہے کتنا ہی نیک ہو، اپنی تاثیر کھو دیتا ہے۔

خیر، ہم داخلی دروازے تک پہنچے۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ چیکنگ کے دوران اصلحے سے زیادہ زور شناختی کارڈ پر تھا۔ گویا شناختی کارڈ نہ ہو تو دہشت گردی یقینی سمجھی جائے گی!

میری ایک پرانی عادت ہے۔ بھاری بٹوا مجھے ہمیشہ بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ کبھی کاغذات کا ڈھیر، کبھی غیر ضروری شناختیں۔ اس لیے اکثر شناختی کارڈ ساتھ نہیں ہوتا۔ اب آپ اسے لاپرواہی کہیں یا آزادی کی ضد۔

مگر سچ یہ ہے کہ "اپنے ہی ملک میں شناخت کیسی؟ جہاں دل چاہے، وہاں جاؤ۔ آخر شناخت کا یہ بوجھ کب تک اٹھاتے رہیں؟"

حقیقی سیکیورٹی اگر درکار ہو۔ تو خطرہ کاغذی شناخت سے نہیں۔ بلکہ اسلحے، نیت اور ذہنوں کی آلودگی سے ہوتا ہے۔ مگر یہاں شناختی کارڈ کو گویا کوئی "جادو کی چھڑی" سمجھا جاتا ہے، جسے دیکھتے ہی دل کے راز بھی سامنے آجائیں اور ماضی کا سارا کرمنل ریکارڈ بھی۔ مگر حقیقت میں یہ سب ایک رسمی کاروائی ہے۔

جیسے ہی اندر قدم رکھا، ایک غیر مرئی کیفیت نے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ فضا پر خاموشی کا لبادہ ضرور تھا، مگر اس میں ایک غیر معمولی شِدت گُھلی ہوئی تھی۔ ہم بھی مودّب ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ مگر حیرت تب ہوئی، جب ذاکر کی آواز منبر سے بلند ہوئی۔

مولوی حضرات کی خطابت تو ہمیشہ سنی، مگر یہ ذاکر، گویا جذبات کا کوئی تاجر تھا، جو لفظوں کے بجائے لہجے سے سودا بیچ رہا تھا۔ آواز بلند ہوتی گئی اور پھر حد سے گزر گئی۔ یہ کوئی فکری دعوت یا معنویت بھرا پیغام نہ تھا، بلکہ ایک شور، ایک ہنگامہ۔۔ ایسا محسوس ہوا کہ منبر، علم و حکمت کا مرکز نہیں بلکہ ایک جذباتی میدانِ جنگ بن گیا ہے، جہاں فہم و شعور کا دم گھٹ رہا تھا۔

حیرانی مزید بڑھی جب مولا علیؑ کے فضائل بیان کرتے ہوئے تمام انبیاء علیہم السلام سے تقابل کا سلسلہ شروع ہوا، وہ بھی بغیر کسی علمی دلیل یا معتبر روایت کے، مزید حضرت حسان بن ثابتؓ جیسے جلیل القدر صحابی اور نعت گو شاعر کا ذکر کچھ یوں ہوا گویا محلے کے کسی بزرگ کا تذکرہ ہو۔

نہ کوئی وقار، نہ احترام، نہ صحابیت کا پاس۔ زاکر صاحب کی خطابت گویا انبیاء سے نیچے کسی کو ماننے پر آمادہ ہی نہیں۔ کبھی مولا علیؑ کے ہاتھ کو اللہ کے ہاتھ سے تشبیہ دی جاتی، تو کبھی انہیں حضرت ابراہیمؑ کے کندھوں پر بٹھا کر بت شکن بنا دیا جاتا ہے۔

سچ کہوں تو یہ سب محض من گھڑت باتیں نہیں، بلکہ "رٹی رٹائی داستانیں" تھیں اور اندازِ بیان ایسا پُراعتماد کہ سامعین واہ واہ کرتے نہ تھکتے۔ افسوس فقط اس بات کا ہے کہ عشقِ علیؑ کے نام پر عقل و تحقیق کو قربان کیا جا رہا تھا۔ حالانکہ مولا علیؓ خود وہ "بابِ علم" ہیں جو روایت کو تحقیق سے الگ کرتے ہیں اور سچائی کے لیے دلیل مانگتے ہیں، صرف جذبات نہیں۔

میں دم بخود بیٹھا سوچتا رہا کہ جن کی عظمت خود صحیح احادیث سے روشن ہے، اُن ہستیوں کی شان کو ضعیف حکایات اور غیر مستند قصے کہانیوں میں کیوں گم کر دیا جاتا ہے؟

میرے دل میں سوال ابھرا۔ کیا یہی منبرِ حسینؑ ہے؟ کیا یہی محبتِ اہلبیتؑ کا بیان ہے؟ یا ہم نے اپنے ہی مقدس ناموں کو جذبات کی تجارت کا عنوان بنا دیا ہے؟

یہ کیفیت، دل کو کاٹنے لگی اور ذہن ایک ہی بات پر اٹک گیا: محبت اگر دلیل سے خالی ہو جائے، تو اندھی عقیدت جنم لیتی ہے اور اندھی عقیدت، سچ کو بھی شور میں گم کر دیتی ہے۔

ذاکرنے جب جذبات کی ایک نئی لہر پیدا کی، تو گویا ایک نیا فرمان جاری ہوا: "اپنے گریبان کھول لو، تاکہ لگے تم پر کوئی قیامت گزر گئی ہے"۔

میں نے سر جھکا کر دیکھا۔ گریبان تو پہلے ہی کھلا تھا۔ دل نے عجیب سا اطمینان محسوس کیا کہ چلو، کچھ تو مشترک نکلا۔

کچھ دیر بعد اگلا ارشاد ہوا: "آستینیں چڑھا لو! "

نگاہ دوڑائی، وہ بھی چڑھی ہوئی تھیں۔

یوں لگا جیسے ایک لمحے کے لیے میں واقعی محفل کی اکثریت سے ہم آہنگ ہوگیا ہوں۔ میں تو ویسے بھی کالا لباس، چڑھی آستینیں اور کھلا گریبان لیے مجالس میں گھومتا ہوں۔ مگر آج زاکرنے ان ظاہری علامات کو ایک نیا مطلب دے دیا، کہ یہ سب دراصل غم کی شدت اور نقصان کے اظہار کی علامت ہیں۔

یعنی یہ بات بھی میرے لیے کسی "علمی انکشاف" سے کم نہ تھی۔

مگر سوال یہ ہے۔ کیا واقعی غم کی گہرائی اب کپڑوں کی ترتیب سے ماپی جائے گی؟ کیا رنج و الم کا اظہار اب فقط ظاہری حلیے سے ہوگا؟ کیا درد اب بھیس بن گیا ہے؟ کوئی منطق ہے اس بات کی؟

مگر شاید ایسے تمام سوال اُس شور، ہجوم اور لاشعوری کی دھند میں کھو جاتے ہیں۔۔

اصل منظر تو تب نمودار ہوا جب ذاکر صاحب نے اعلان کیا: "اب جو جملہ کہنے والا ہوں، اُس کے بعد کوئی آنکھ خشک نہ رہے گی! "

جملہ ابھی لبوں پر آیا بھی نہ تھا کہ محفل یکایک ماتم کدہ بن گئی۔ مجمع بلک بلک کر رونے لگا۔

میں حیرت میں ڈوبا اطراف دیکھتا رہا: "صاحبو، پہلے جملہ تو سنو! "

یہ کوئی روحانی کیفیت نہ لگ رہی تھی بلکہ ایسا محسوس ہورہا تھا گویا سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہو، جیسے کوئی اسٹیج ڈرامہ ہو، جس کا ہر مکالمہ، ہر آہ، ہر آنسو، پہلے سے طے شدہ ہو۔

یہ منبر کم، جذبات کی منڈی زیادہ لگی، خطابت نہیں، ہنر تھا۔ لمحوں میں آنکھوں سے آنسو کھینچنے اور پھر اُنہیں عقیدت کا نام دے کر داد سمیٹنے کا ہنر۔ میں کسی کی نیت پر سوال نہیں اٹھاتا، غمِ حسینؑ میں آنسو بہانا ایک فطری احساس ہے۔

مگر یہ منظر؟ یہ اشکوں کی تجارت؟

یہ وہ منبر تھا جہاں معنی شکست کھا گئے اور شور غالب آ گیا۔ آوازیں تھیں، مگر سچائی کہیں دب گئی تھی۔ دینِ محمدﷺ کے نام پر پیش کیا گیا ایک ایسا بے سُرا نغمہ، جس میں علم پیچھے رہ گیا اور جذبات آگے نکل گئے۔

خیر، جب گریہ و ماتم نے شدت اختیار کی اور طویل بیٹھک کے باوجود موضوع بس ایک ہی دائرے میں گردش کرتا رہا، مولا علیؑ کا مقام اور انبیاء کرام سے تقابل!

مولا علیؑ سے محبت بلاشبہ ایمان کی علامت، مگر خدارا، محبت کو غلو کی اس دہلیز پر نہ لے جائیں جہاں توازن دم توڑ جائے۔ تب دوست نے آہستگی سے سرگوشی کی: "چلیں؟"

ہاسٹل کے دروازے بھی بند ہونے کو تھے، سو ہم خاموشی سے اُس ہجومِ عقیدت سے رخصت ہو گئے۔

دل میں ایک ہلکی سی کسک لیے کہ نہ رخصتی امام کی یاد سے تھی، نہ عقیدت سے، بلکہ اس طرزِ خطابت سے جو فکرکے بجائے جذبات کو ورغلاتی ہے۔

باہر قدم رکھا تو ایک اور منظر دل کی دیواروں کو ہلا گیا۔ چند افراد کندھوں پر ایک جنازہ نما تابوت اٹھائے کھڑے تھے۔ گریہ جاری تھا اور کفن پر سرخ دھبے نمایاں تھے۔

پوچھا تو معلوم ہوا: "یہ امام حسینؑ کا نمائش کے لیے رکھا گیا تابوت ہے"۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

غمِ حسینؑ بجا ہے، آنسو بہانا بھی فطری جذبہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عقیدت کا اظہار بھی اب نمائش بن چکا ہے؟ اس حد تک جذبات فروشی؟

کیا واقعی ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ امام حسینؑ صرف مظلومیت کی علامت ہیں؟ ہم نے ان کے تصور کو صرف رنج و آہ کے سانچے میں ڈھال دیا جبکہ وہ تو شجاعت و استقامت کا استعارہ تھے۔ باطل کے خلاف ڈٹ جانے کی سب سے بلند مثال۔

ہم نے ان کی سیرت کو چیخوں میں اور ان کے پیغام کو صرف نعرہ بازی میں بدل دیا۔ حالانکہ حسینؑ تو وہ آواز ہیں جو قیامت تک ظالم کے خلاف گونجتی رہے گی۔

تحریر کے آخر میں ایک وضاحت ضروری ہے۔ یہ تحریر کسی مکتبِ فکرکے خلاف ہرگز نہیں۔ البتہ یہ ایک خاموش مگر پُراثر احتجاج ضرور ہے، اُن زاکرین کے خلاف، ان بدعات کے خلاف جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک احتجاج انکے خلاف جو منبر کو جذبات فروشی کا اکھاڑہ بنا چکے ہیں اور جن سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

یہ صرف ایک ذاتی مشاہدے کی روداد ہے، جو سوال بن کر دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے: کیا ہم نے حسینؑ کو محض مظلوم کہہ کر اُن کی شجاعت، بصیرت اور پیغامِ حق کو محدود کر دیا ہے؟ خدارا، حسینؑ کو صرف آنسوؤں کی نذر نہ کریں۔ بلکہ انہیں فکر، فہم اور شعور کے ساتھ یاد کریں تاکہ کربلا صرف مجلسوں کی گونج نہ رہے، بلکہ کردار کی روشنی بن جائے۔

سلام یا حسینؑ۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali