Takfeer Aur Taasub Ki Fiza Kyun?
تکفیر اور تعصب کی فضا کیوں؟

اللہ ایک، رسول ایک، قرآن ایک، دین ایک، قِبلہ ایک، تو پھر ہم کیوں ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں؟
ڈسکلیمر: میں وہی لکھتا ہوں جو سوچتا ہوں، نہ خوف کی زنجیروں میں جکڑا ہوں، نہ مصلحتوں کی چادر اوڑھے بیٹھا ہوں۔ میری تحریریں کسی کی دِل آزاری کے لیے نہیں، بلکہ ذہنوں کوجھنجھوڑنے، سوال اٹھانے اور سوچ کو بیدار کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشِش ہیں۔ اگر میری رائے سے اِختلاف ہے تو بجا ہے، اِختلافِ رائے فِکر کی معراج ہے بس شرط یہ ہے کہ یہِ اِختلاف دلیل کی دَستار سے آراستہ ہو، نہ کہ تعصب کی گرد سے آلودہ! تو آئیے، آج ہم اُس زہر پر لب کُشائی کرتے ہیں جس پر زبانیں بند ہیں، وہ جو ہمارے معاشرے کے لیے ناسور بن چکا ہے، تکفیر!
لوگ اِس پر بات کرنے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ وہ مُسلسل خوف میں جیتے ہیں، ڈرتے ہیں کہ کہیں تنقید کا نشانہ نہ بن جائیں۔ مگر میں یہاں ہر اُس موضوع پر بات کرنے آیا ہوں جس کا گلا ہم نے خود دبایا ہے اور جس کے نتیجے میں ہماری سانسیں گھٹ رہی ہیں۔
اسلام، جو کبھی اَمن، مُحبت اور اَخوت کا علمبردار تھا، آج فتووں کی تلواروں سے زخمی ہو چکا ہے۔ تکفیر، جو کبھی ایک ناپسندیدہ عمل سمجھی جاتی تھی، اب معمول بن چکی ہے۔ ہر اِختلافِ رائے کو "کُفر" کا نام دے کر ہم نے اپنے درمیان کی مُحبت، ہمدردی اور بھائی چارے کو مسخ کر دیا ہے۔ یہ تکفیر اُمت کی وَحدت کا گلا گھونٹ رہی ہے اور ہمیں اِس بات کا احساس تک نہیں ہو رہا کہ ہماری سانسیں گُھٹ رہی ہیں۔
تکفیر کا بازار اِس قدر گرم ہے کہ منبرِ رسولﷺ اب اصلاح کا نہیں، فتوؤں کی بوچھاڑ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ علما اختلاف رائے کو دشمنی سمجھ کر زبانوں سے آگ برساتے ہیں۔ عدم برداشت نے دین کی رُوح کو مجروح کر دیا ہے اور اخلاقیات دم توڑ چکی ہیں۔ ہم اخلاقی گِراوٹ کی پستی میں اور کتنی گہرائی تک جا سکتے ہیں؟ ہم اِختلافات کو گالیوں کی زبان میں کیوں بدل دیتے ہیں؟ جب بھی ہمارے اندر اختلاف کی شِدّت بڑھتی ہے، ہم اِسے گالیوں کے ذریعے دبا دینے کی کوشش کرتے ہیں، گالی دینا ہماری ذہنی پستی اور اخلاقی بانجھ پن کی علامت ہے نہ کہ کسی حق کی نمائندگی۔
ہم سب نے بچپن سے یہ سُنا اور پڑھا کہ "مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں "، جیسا کہ سورہ الحجرات میں بھی ارشاد فرمایا گیا۔ مگر جب شعور کی آنکھ کھلی، تو عملاً دیکھا کہ ہم نے اس بھائی چارے کو فرقہ واریت کی نظر کر دیا۔ ہم نے قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے اپنے اپنے مَسلک کی ڈوریاں پکڑ لیں اور یوں ہماری وحدت چِھن گئی، اِتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان واقعی ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو پھر یہ "فرقہ وارانہ نفرت" اور "تکفیر" کی فضا کیوں؟ ہم نے اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے بجائے اِسے دشمنی کا نام دے دیا۔ محبت، اخوت، اِتحاد، سب کچھ اسلیے قربان کر دیا کیونکہ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ شاید ہمارا فہم بھی ناقص ہو سکتا ہے۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے مؤقف کو یوں پیش کرتے ہیں جیسے وہ نعوذباللہ وحیِ الٰہی ہو اور دوسروں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا جیسے ہماری اولین ذمہ داری۔ حالانکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ "فتویٰ" دینا خدا کی حدوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں فرض کرلیتے کہ اگر دوسرا فریق 100 فیصد غلط ہے، تو کیا ہم 100 فیصد دُرست ہیں؟
تکفیر کی یہ لِہر صرف اِختلاف کی نہیں بلکہ غرورِ عِلم کی پیداوار ہے جس کا انجام تَفرقہ، نفرت اور خالصتاً دینی انتشار ہے۔ اگر ہم واقعی دین کی فہم رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں بڑے بڑے آئِمہ نے اِختلاف کی اجازت دی ہے مگر تکفیر کی نہیں۔
جیسا کہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے کہ "میری بات کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھو، اگر تمہیں میری بات خلافِ قرآن لگے تو دیوار پر دے مارو"۔ یہی رویہ ہمیں سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اِسی تسلسل میں امام شافعیؒ کا وہ قول بھی ہمیشہ چراغِ راہ رہنا چاہیے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ "میری رائے درست ہے مگر اس میں غلطی کا امکان ہے اور تمہاری رائے غلط ہو سکتی ہے مگر اس میں دُرستگی کا اِمکان ہے۔ یہ جملہ عِلمی دیانت اور فِکری وُسعت کی وہ عظیم مثال ہے جِسے آج کے تنگ نظر ماحول میں بطورِ نسخہ اپنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اختلافِ رائے جرم نہیں لیکن "تکفیر" اور "تعصب" سب سے بڑا جُرم ہے۔
یقیناً، فرقہ واریت اپنے اندر خطرناک زہر رکھتی ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک وہ تعصب ہے جو ہمیں اپنے ہی بھائی سے بیگانہ کر دیتا ہے اور سب سے مُہلک وہ تکفیر ہے جو ہمیں فتوؤں کے نیزے اٹھا کر ایک دوسرے کے ایمان پر وار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا اور وہ جملہ آج تک ذہن میں گونجتا ہے کہ "اللہ ایک، رسول ایک، قرآن ایک، دین ایک، تو پھر ہم کیوں ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں "؟ سوچنے کی بات ہے! ہم نے ایک خدا، ایک نبی، ایک کتاب اور ایک قِبلہ کے ماننے والے ہو کر اتنے فرقے اور اتنے فاصلے کیسے پیدا کر لیے؟
تو آئیے، ذرا رُک کر سوچیں! کیا ہم واقعی اللہ کی رَسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں یا ہم نے اِسے چھوڑ کر اپنے اپنے فرقوں کی ڈوریوں میں الجھنا قبول کر لیا ہے؟
کیا ہمارا دین ہمیں کُفر کے فتوے بانٹنے کا درس دیتا ہے؟ اگر واقعی قرآن و سنت ہی ہماری رہنمائی کا معیار ہیں تو ہمیں ہر اُس آواز کو سننا ہوگا جو دلیل سے مزین ہو، خواہ وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم خود کو، اپنی قوم کو اور آنے والی نسلوں کو تکفیر کے زہر سے بچائیں اور وحدت، برداشت اور بھائی چارے کے اُس راستے پر گامزن ہوں جسے نبی کریم ﷺ نے اپنی سیرت سے روشن کیا تھا۔
آئیے! دلیل کی روشنی میں اس صدیوں پرانی اُلجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کا عزم کریں۔
آئیے! کِسی کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کریں، اِختلاف کو برداشت کرنے کا ظَرف پیدا کریں۔
خدارا! اس تنگ نظری اور نفرت کے گرداب سے باہر آئیں اور دین کو پھر سے اخلاق، فہم و فراست اور وسعتِ قلب کا مظہر بنائیں۔
آئیے! تکفیر کے دلدل سے باہر نکلیں اور دوبارہ اُس خوشبو کو عام کریں جو وحدت، اخوت اور محبت کا پیغام رکھتی ہے۔ تحریر کے آخر میں اِتحاد امت کیلئے کچھ آیات مبارکہ: ترجمہ سورہ آلِ عِمران آیت نمبر: 103
اللہ کی رَسی (یعنی قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
ترجمہ سورۃ الانفال آیت نمبر: 46
اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہَوا اُکھڑ جائے گی۔
آج اتحادِ اُمّت صِرف ایک نعرہ نہیں، ایک "فریضہ" ہے۔ تکفیر سے نِجات، فہم و تدبر سے مکالمہ اور اَخُوّت کا راستہ، یہی ہماری بَقا کی واحِد صُورت ہے!

