Siyasi Waade, Haqeeqat Ya Dhoka?
سیاسی وعدے، حقیقت یا دھوکہ؟

ہر اِنتخابی موسم میں، حسبِ روایت، سیاستدان عوام کو سبز باغ دکھانے میں جُت جاتے ہیں۔ کوئی ہر گھر کو بجلی، دینے کا وعدہ کرتا ہے، کوئی ایک کروڑ نوکریاں، فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور کوئی بدعنوانی کے مکمل خاتمے، کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان، کا خواب دکھایا، تو کسی نے ووٹ کو عزت دو، کا بیڑا اُٹھایا، مگر افسوس! ان میں سے کوئی بھی وعدہ کبھی عملی شکل نہ اختیار کر سکا۔ یہ دعوے اِتنے دِلکش اور پُرکشش ہوتے ہیں کہ عوام بے ساختہ اِن کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ لیکن جونہی اِقتدار کا سورج طلوع ہوتا ہے، یہ سارے وعدے دھوپ میں بُخارات بن کر ہوا ہو جاتے ہیں۔
سیاستدانوں کے یہ وعدے معمول کی طرح ہوتے ہیں جن کا مقصد عوام کو وقتی طور پر مطمئن اور مصروف کرنا ہوتا ہے۔ یہ وعدے اکثر بغیر کسی منصوبہ بندی کے کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اِن کی تکمیل کا کوئی ارادہ یا نیت ہوتی ہے۔ نتیجتاً، عوام کی اُمیدیں ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں اور مایوسی ان کی تقدیر بن جاتی ہے۔
اِسکے علاوہ سیاستدانوں کی Shuffling اب نظریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کی منڈی میں چمک دمک پر ہوتی ہے۔ آج جو ایک جماعت کا پرچم تھامے نعرے لگاتا ہے، کل مُخالف کی صف میں کھڑا ہوتا ہے اور عوام ہر بار نئے خوابوں کے دھوکے میں!
ہر سیاسی جماعت انتخابات سے پہلے دعویٰ کرتی ہے کہ اُس کے پاس ملک و قوم کی خدمت کے لیے "بہترین ٹیم" موجود ہے مگر جب اقتدار کی کرسی قریب آتی ہے تو پرانے حریفوں کو خریدا جاتا ہے، وفاداریاں تبدیل کرائی جاتی ہیں اور ایک ایک "چہرے" کی بولی لگتی ہے۔ یہ سیاست نہیں، سرمایہ کاری ہے، کروڑوں روپے لگتے ہیں اور اقتدار میں آ کر وہ سود سمیت وصول کیے جاتے ہیں۔
کل کے حریف آج ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہو کر چلتے ہیں۔ وہی زبان، جو کل الزامات اور نفرت کی باتیں کرتی تھی، آج محبت اور دوستی کے گُن گاتی ہے۔ اِن کے بیانات میں تضاد نہیں، بلکہ اصل ترجیح فقط "ذاتی مفاد" ہوتی ہے اور عوام؟ وہ ہر بار اُنہی الفاظ کے جال میں آ کر، اُنہی چہروں کو نیا سمجھ کر، اپنی امیدیں دوبارہ اُنہی پر نچھاور کر دیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ کبھی تھمتا ہی نہیں۔
یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کی ناکامیوں کا رونا روتی ہے اور خود کو "نجات دہندہ" کے طور پر پیش کرتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہی پرانی روش اختیار کر لیتی ہے۔ عوام کے مسائل "جوں کے توں" رہتے ہیں اور وعدے محض وعدے ہی رہ جاتے ہیں۔
"موروثی سیاست" بھی اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جب سیاستدانوں کی کرسی وراثت میں منتقل ہوتی ہے تو عوام کی خدمت کا جذبہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ سیاست ایک پیشہ بن جاتی ہے اور عوام محض "ووٹ بینک" بن کر رہ جاتے ہیں۔ نتیجتاً، عوام کے مسائِل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جاتے ہیں اور سیاستدان اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں۔
عوامی سطح پر سیاسی لیڈران کی "اندھی تقلید" بھی اس زوال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہم اکثر اپنے پسندیدہ لیڈر کی ہر بات کو "حرفِ آخر" سمجھتے ہیں اور اُن سے سوال کرنے کو "گناہ کبیرہ" تصور کرتے ہیں۔ ہم انہیں یہ باور کروا دیتے ہیں کہ "حضور! آپ سے کوئی سوال نہیں کرے گا، نہ ہی کسی کی ہمت ہے آپ کو چیلنج کرنے کی"۔ نتیجتاً، وہ بے خوف ہو کر وعدوں کے انبار لگا دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ اُن کے وعدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھائے گا۔
اس صورتحال میں ایک عام شہری کیا کرے؟ سب سے پہلے، ہمیں اپنی سیاسی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ ہر وعدے کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے پسندیدہ سیاستدانوں سے سخت سوالات کرنا، ان کے وعدوں کا حساب لینا اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہماری اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔
دوسرا، ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کو سمجھنا ہوگا۔ ووٹ صرف ایک حق نہیں، بلکہ ایک امانت ہے۔ اِسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے اور صرف اُن امیدواروں کو ووٹ دینا چاہیے جو واقعی عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں۔
تیسرا، ہمیں اپنی اجتماعی طاقت کو پہچاننا ہوگا۔ جب عوام مُتحد ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو حکمرانوں کو سننا پڑتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں اپنے مسائل پر بات کرنی چاہیے اور ان کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنی چاہیے۔
آخرکار، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تبدیلی صرف حکومتوں سے نہیں آتی، بلکہ یہ عوام کے شعور، عقل اور فہم سے جنم لیتی ہے۔ ہمیں سیاسی تقلید سے نکل کر اپنی عقل و فہم کا استعمال کرنا ہوگا۔ اپنے پسندیدہ لیڈروں کی غلطیوں کا نہ صرف ادراک کریں بلکہ اُن کے وعدوں کے انبار کا تفصیلی جائزہ بھی لیں۔ جب ہم اس حقیقت کو سمجھیں گے، تب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تب ہی ہم اِس بات کو سمجھ پائیں گے کہ سچ کا تعین کیا ہے اور کون سا وعدہ محض جھوٹ کا پلندہ ہے؟ اِس سفر کی اِبتدا عوام کی بیداری سے ہوگی اور یہی وہ وقت ہوگا جب ہم اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں گے اور ایک بہتر معاشرے کی طرف قدم بڑھا سکیں گے۔

