Siasi Kashmakash Aur Awaami Istehsal
سیاسی کشمکش اور عوامی استحصال

ملک میں سیاسی کشمکش کا یہ عالم ہے کہ اقتدار کی کرسی گویا شطرنج کی وہ بازی بن چکی ہے جس میں ہر مُہرہ صرف ذاتی مفاد کے تحت چلایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست، خدمت کے بجائے حکمرانی کے شوق میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔
یہ وہ موضوع ہے جو ہر ہوٹل، نائی کی دکان، بازار اور دفتری بیٹھک میں شدت سے زیرِ بحث رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع بھی ہے جس پر غیر جانبداری سے بات کرنا شاید اب ایک نایاب خوبی بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ کئی صحافی حضرات بھی جذباتی وابستگیوں کے باعث بسا اوقات توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ سیاسی نظریات کی جگہ شخصی عقیدت نے لے لی ہے، دلیل کی جگہ نعرے گونجتے ہیں اور کردار کی جگہ چہرے پوجے جاتے ہیں۔ ہر طرف افراتفری اور کشمکش کا عالم ہے۔ کوئی کرسی کی جنگ لڑ رہا ہے، کوئی عدالت کی دہلیز پر انصاف کا متلاشی ہے، تو کوئی تعلقات بہتر بنانے کی تگ و دو میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔
آج کی سیاسی فضا پر نظر ڈالیں تو ہر طرف انتشار، بے یقینی اور ذاتی مفادات کا راج ہے۔ سیاستدانوں کے وعدے اور بیانات "دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور" والی مثال کے عین مطابق ہیں۔ باتیں اور دعوے تو بڑے بڑے ہوتے ہیں مگر عملی طور پر انجام بالکل مختلف اور مایوس کُن ہوتا ہے۔ موروثی سیاست نے بھی جمہوریت کو جکڑ لیا ہے اور ایک پارٹی سے اقتدار کی سیڑھی چڑھ کر پھر اُسی جماعت کو پیٹھ دکھا دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ وہی چہرے، وہی نعرے، وہی فریب اور عوام؟ وہ ہر بار نئی اُمید سے ووٹ ڈالتے ہیں، ہر بار مایوسی سمیٹتے ہیں۔
انتخابی میدان میں قدم رکھنے والے سیاستدان کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر جیت گئے تو اقتدار "سونے کی کان" ثابت ہوگا اور اگر ہار گئے تو "سیاسی شہید" بن کر نیا بیانیہ تراش لیں گے۔
عوامی استحصال اس سارے منظرنامے کا سب سے افسوسناک پہلو ہے۔ وہ عوام، جو مہنگائی، بےروزگاری، تعلیم و صحت کی بدحالی میں پِس رہی ہے، آج بھی صرف نعروں سے بہلائی جا رہی ہے۔ نہ ووٹ کو عزت مل سکی، نہ روٹی، کپڑا اور مکان خواب سے حقیقت بن سکا، نہ تبدیلی کے نعرے سچ ثابت ہوئے، نہ آزادی کا تصور مکمل ہوا اور نہ ہی اسلام کا نظام نافذ ہو سکا۔ رہ گئے تو صرف نعرے، جو عوام کی زبانوں پر گونجتے رہے اور پھر وقت کے ساتھ ماند پڑ گئے۔ البتہ چند سڑکیں، کچھ ٹف ٹائلز، ایک آدھ نلکا یا بجلی کا کھمبا لگا کر عوامی خدمت کے تمغے سمیٹے جا رہے ہیں۔
کیا یہی ترقی ہے؟ کیا یہی سیاست ہے؟
عوام آج بھی دو وقت کی روٹی، انصاف، تحفظ اور باعزت روزگار کے خواب دیکھ رہی ہے مگر سیاستدان محض کرسی کے کھیل میں مگن ہیں۔
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم جذباتی وابستگیوں کا حصار توڑ کر سوچنے اور سوال کرنے کی جرأت کریں؟ کیا ہم ابھی تک ان سیاسی اداکاروں کی پرانی اسکرپٹ کو پہچاننے سے قاصر ہیں؟
یہ تحریر اُن تمام حضرات کے نام ہے جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ خدارا! اپنے قائدین سے محبت ضرور کریں، اُنہیں آئیڈیلائز بھی کریں مگر اُن کی غلطیوں کو تسلیم کرنا بھی سیکھیں۔ سیاسی کشمکش ہو یا عوامی استحصال، ہر جماعت نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اگر آپ اتنا مان لیں کہ کوئی بھی دودھ کا دُھلا نہیں، تو میں سمجھوں گا میرا پیغام آپ تک پہنچ گیا ہے۔

