Shehar e Behissi
شہرِ بے حسی

بے حسی کی بھیڑ میں وہ کھو گیا
خوف تھا جس کا وہی کل ہوگیا
(مظہر عباس)
آج کی تحریر صرف چند سطور پر مشتمل نہیں بلکہ کراچی کے ایک اور معصوم بچے ابراہیم کے نام۔۔
یہ تحریر ہم سب کی اجتماعی بے حسی اور اس گھسے پٹے فرسودہ اور زنگ آلود نظام کے خلاف ایک احتجاج ہے، جو دہائیوں سے پیپلز پارٹی کی صورت میں سندھ پر مسلط ہے مگر بے حسی ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لیتی۔ بادشاہ سلامت کا شوق سلامت رہے، چاہے شہر چیختا رہے، گھر اجڑتے رہیں، مائیں روتی رہیں، گٹر نگلتے رہیں، سڑکیں زخم خوردہ رہیں بس اقتدار کا تاج نہ اُترے، کرسی ہلنے نہ پائے!
روشنیوں کا شہر، جو کبھی جگمگاتا تھا، آج اندھیروں کا منظر پیش کر رہا ہے۔
گزشتہ شب ایک بجے سوشل میڈیا پر اسکرولنگ کرتے ہوئے ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی، جس نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد، نیپا چورنگی پر ایک تین سالہ معصوم بچہ، ابراہیم، مین ہول میں جاگرا۔ اس کی ماں کی چیخ و پکار، آہ و زاری اور بے بسی نے جیسے رات کی نیند چھین لی۔ اُس ماں کی آواز اب بھی کانوں میں گونج رہی ہے: "اللہ کے واسطے کوئی میرا بچہ لا دو، میں مر جاؤں گی۔۔ "
یہ الفاظ دل کو چھلنی کر گئے۔ دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کو تھم سی گئی اور اِس لمحے جب یہ لفظ کاغذ پر اتر رہے ہیں، میری آنکھیں اب بھی نم ہیں۔
اس واقعے سے قبل بھی لیاقت آباد میں چار دن لاپتا رہنے والا ایک معصوم بچہ ایسی حالت میں ملا کہ اُس کا نازک وجود درندہ صفت جانوروں کی خوراک بن چکا تھا۔ کبھی ڈمپر بےگناہوں کو روندتے ہیں، کبھی ڈاکو گھروں کے چراغ بجھا دیتے ہیں۔ یہ کونسا نظام ہے؟ یہ کیسا شہر ہے؟ آخر کب تک ہم لاشیں گنتے رہیں گے؟ آخر کس کس ظلم کا شکوہ کریں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے سیاستدان، ہمارے ذمہ داران اور ہمارے ادارے کس مٹی سے بنے ہیں؟ کیا ان کے بچے نہیں ہوتے؟ کیا وہ والدین نہیں بنتے؟ اتنی سنگدلی، اتنی بے حسی؟ اور پھر ٹھیک ایک دن بعد، اس معصوم کی لاش ملی۔ ایک خاموش لاش، جو پورے نظام پر سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔
سوچتا ہوں، وہ لمحہ کیسا ہوگا؟ جب ایک ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو مین ہول میں گرتے دیکھ کر صرف فریاد کر رہی ہو اور پورا نظام، سارا معاشرہ، سب ادارے، صرف تماشائی بنے ہوں۔ ہماری سیاست، ہماری اشرافیہ اور ہمارا پورا معاشرہ، سب بے حس ہو چکے ہیں۔ ہم صرف تماشا دیکھتے ہیں، افسوس کرتے ہیں اور پھر اگلی خبر کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
سندھ حکومت کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک ایسی حکومت جو بے حسی، مردہ روی اور بوسیدگی کی عملی تصویر بن چکی ہے۔ آخر اِس علاقے سے بھی کسی نے ووٹ لیا ہوگا، کسی کے نام کے نعرے لگے ہوں گے، مٹھائیاں بٹی ہوں گی، مگر آج، جب زمین ایک معصوم کو نگل گئی، تو سب خاموش کیوں ہیں؟ اور سندھ حکومت کے حامیوں سے ایک گزارش ہے، اگر سیاستدان شرم نہیں کرتے تو آپ ہی شرم کرلیں، آپ ہی کچھ لاج رکھ لیں۔
کل کو وہ بچہ آپ کا بھی ہو سکتا ہے، وہ ماں آپ کی بھی ہو سکتی ہے۔ بھلا یہ کوئی موضوع ہے سیاست کرنے کی؟ کیا ہم واقعی اتنے سنگدل ہو چکے ہیں کہ اب ایسی دل خراش صدائیں بھی ہمیں جھنجھوڑنے سے قاصر ہیں؟
کیا ایک ماں کا بکھر جانا، چیخ چیخ کر بیٹے کو پکارنا، ہمارے لیے محض ایک "خبر" ہے؟ چند لمحے کیلئے فرض کریں اگر وہ بچہ ہمارا ہوتا تو؟ اگر وہ ماں ہماری ماں ہوتی تو؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا صرف حکومت ہی مجرم ہے؟
کیا ہم خود بھی بے حسی کی نیند نہیں سو رہے؟ اگر حکومت کچھ نہیں کر رہی، تو اللہ اُن سے ضرور پوچھے گا، مگر ہمیں بھی اپنے حصے کا فرض نبھانا ہوگا۔ معاشرتی مسائل اجتماعی کوششوں سے ہی حل ہوں گے۔
مساجد، ویلفیئر ادارے اور بااثر شخصیات چندے جمع کرتی ہیں، لیکن صرف مسجد کی تعمیر کے لیے کیوں؟ کیا مین ہول کے ڈھکن لگانا، ٹوٹی سڑکیں مرمت کرنا، آوارہ کتوں سے بچوں کو بچانا کوئی "کم دینی" کام ہے؟ کیوں ہم نے محض عبادت گاہوں کو تعمیر کرکے خود کو بری الذمہ سمجھ لیا ہے۔ جگہ جگہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں تو تعمیر ہوگئیں، مگر افسوس! وہ سماجی ڈھانچہ نہ بن سکا جو معصوم جانوں کو گٹروں، سڑکوں اور نظام کی بے حسی سے بچا سکے۔
خدارا، اپنی مدد آپ کا جذبہ اپنائیں ورنہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے۔ موجودہ حکومت سے تو امید باندھنا دور کی بات ہے، آنے والی حکومتیں بھی شاید اسی قدر بے حس، اسی قدر مردہ ہوں۔
یہ سوال صرف الفاظ نہیں، یہ ہمارے دل کے کٹہرے میں رکھے جانے والے سوال ہیں۔
خدارا، اب بھی وقت ہے، سوچیں، جاگیں اور کچھ کریں!

