Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Shakhsiyat Parasti Ya Butt Parasti, Aik He Sikke Ke Do Rukh

Shakhsiyat Parasti Ya Butt Parasti, Aik He Sikke Ke Do Rukh

شخصیت پرستی یا بت پرستی، ایک ہی سکے کے دو رخ

یہ میرا پہلا شائع شدہ کالم ہے، مگر لفظوں سے میرا رشتہ نیا نہیں۔ کئی سالوں سے جو کچھ سوچتا آیا، جو محسوس کرتا رہا، وہ کاغذ پر اترتا رہا، لیکن آج پہلی بار یہ تحریر قارئین کے وسیع حلقے تک پہنچ رہی ہے۔ یہ سفر صرف قلم کا نہیں، احساس کا ہے۔ وہ احساس جو ایک عام شہری کی طرح میرے اندر ہر روز سوال بن کر جنم لیتا ہے اور تحریر بن کر سکون پاتا ہے۔ میں نہیں جانتا میری تحریر کتنے لوگوں تک پہنچے گی، یا کون اس سے اتفاق کرے گا مگر میری خواہش ہے کہ یہ چند سطریں کسی ایک سوچ کو بھی بیدار کر سکیں، کسی ایک نظریے کو بھی ہلا سکیں، تو یہ میری کامیابی ہوگی۔

تو آئیے، پہلے کالم میں ہم بات کرتے ہیں اُس بیماری کی جو ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے وہ ہے "شخصیت پرستی کا بت اور ہم"۔

انسان صدیوں سے بُتوں کی پرستش کرتا آیا ہے، کبھی پتھر کے بُت، کبھی مٹی کے اور کبھی نظریات کے۔ مگر سب سے خطرناک بُت وہ ہوتا ہے جو سانس لیتا ہے، جو بولتا ہے، جو مسکراتا ہے اور وہ ہے "شخصیت کا بُت"۔ پھر چاہے انسان پتھر کے بُتوں کو پوجے یا چلتے پھرتے انسانوں کو مقدس بنا کر ان کی اندھی تقلید کرے، درحقیقت یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔

شخصیت پرستی کا آغاز اکثر سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت سے ہوتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس میں ہم کسی فرد کو اتنی اہمیت دے دیتے ہیں کہ وہ ہماری سوچ، رویے اور اقدار کا مرکز بن جاتا ہے۔

آج کے دور میں، سیاسی میدان ہو یا سماجی، ہر سطح پر شخصیت پرستی کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما جو ماضی میں عوام کی خدمت کے لیے منتخب کیے گئے تھے، آج اپنی طاقت کی بنیاد پر اپنے پیروکاروں کو اپنی ذات کے گرد چکر لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی حال ہر شعبے میں ہے، چاہے وہ تعلیم ہو، مذہب ہو یا صنعت۔ جب ایک فرد یا گروہ اپنی اہمیت کو اتنا بڑھا لیتا ہے کہ وہ تمام فکری اور سماجی اصولوں سے بالاتر ہوجاتا ہے، تو یہ انفرادیت کے تصور کو مکمل طور پر مٹاتا ہے اور جمہوریت اور برابری کے اصولوں کو کمزور کرتا ہے۔

ہم اکثر کسی شخصیت کی عظمت سے اتنے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ اُسے فرشتہ صفت سمجھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی عقل، شعور اور فہم کو اس کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں اور یوں ہم غیر محسوس انداز میں "شخصیت پرستی" کے جال میں جکڑ لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو عقیدت کے خوشبودار پھولوں میں لپٹا ہوتا ہے، مگر اندر ہی اندر سچائی، عقل اور آزادیِ فکر کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔

جب کسی انسان کو "معیارِ حق" مان لیا جائے اور اس کی زبان سے نکلے ہر لفظ کو "حرفِ آخر" سمجھا جائے، تو حق کا اصل پیمانہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔

ایک طرف حضور ﷺ کا عمل، کہ آپ ﷺ اپنے لیے کھڑے ہونے کو ناپسند فرماتے تھے اور دوسری طرف آج کے کچھ پیشوا اور رہنما ہیں جنہیں تب تک قرار نہیں آتا جب تک لاکھوں لوگ ان کے استقبال میں صف آرا نہ ہوں، جب تک نعرے نہ لگیں، واہ واہ نہ ہو، الیکٹرانک میڈیا پر سہرا نہ باندھا جائے، جب تک مریدین ہاتھوں پیروں پر بوسے نہ دیں اور تعظیمی انداز میں جھک نہ جائیں۔

یہی شخصیت پرستی کی بدترین صورت ہے، کہ ایک انسان، دوسرے انسان کے آگے سجدہ ریز ہو۔ چاہے وہ سجدہ جسمانی ہو، ذہنی ہو یا نظریاتی۔

سوال یہ نہیں کہ ہمیں شخصیات سے محبت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ:

کیا ہم ان سے بالاتر سوچنے کی جرات رکھتے ہیں؟

کیا وہی عقلِ کُل ہیں؟

کیا ہم ان کی غلطیوں کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

کیا ہر سچ صرف انہی کی زبان سے نکلتا ہے؟

اگر ان تمام سوالات کا جواب "نہیں" ہے، تو پھر سوال یہی ہے کہ ہم آخر شخصیت پرستی کیوں کریں؟

یاد رکھیے، شخصیت کو ماننا جرم نہیں، مگر شخصیت کو "معیارِ حق" مان لینا آج کے دور کی سب سے بڑی فکری غلامی ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali