Riyasat Maa Hai, Na Maa Jaisi
ریاست نہ ماں ہے، نہ ماں جیسی

محسن غریب لوگ بھی تنکے کے ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے
دو دن قبل ایک خاندان، کسی کا بیٹا، کسی کی ماں، کسی کا باپ اور کسی کا شوہر، گھنٹوں تک بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ زندگی سسک رہی تھی، مگر ریاستی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
یہ وہی ریاست ہے جو عمران خان کی بہن علیمہ خان کو ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر بھیج دیتی ہے، یہ وہی ریاست ہے جو گراونڈ خشک کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر بھیج دیتی ہے۔ مگر جب عام آدمی کی باری آتی ہے تو ریاست گویا نیند کی گہری وادیوں میں سو رہی ہوتی ہے اور وہ نیند ایسی ہے جس سے بیداری ممکن ہی نہیں لگتی۔
یہ پہلا سانحہ نہیں۔ چند سال قبل بھی ایسی ہی قیامت بیت چکی ہے اور اب پھر ایک اور دہکتا لمحہ، جس نے ثابت کر دیا کہ یہ ریاست ماں تو کیا، ماں جیسی ہمدرد بھی نہیں۔ ریاست تب بھی خاموش تھی اور آج بھی۔
کچھ لمحوں کے لیے آنکھیں بند کرکے سوچیں، وہ ڈیڑھ گھنٹے جو ایک خاندان کے لیے گزرے، جب وہ آخری بار ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے، خوف کی لپیٹ میں ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے، اپنے معصوم بچوں اور پیاروں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، پھر خود بھی پانی کے بے رحم حصار میں ڈوب گئے۔
دل کانپ اٹھتا ہے جب تصور کرتا ہوں کہ موت کے آخری لمحات کتنے دردناک اور کربناک ہوتے ہیں۔ وہی خاندان جو چند لمحے سکون کے لیے بے تاب تھے، جو خوشیوں اور ارمانوں کے خواب لیے، ایک تفریحی سفر پر نکلے تھے۔ مگر کس نے سوچا تھا کہ یہی سیاحت ان کی جان لے جائے گی۔
ویڈیو میں جب وہ ماں ٹیلے پر کھڑی بے بسی سے تھرتھرا رہی تھی، تو شرمندگی کا ایک سایا دل پر چھا گیا۔ ایک ماں کے سامنے اس کی نسل ختم ہو رہی تھی اور وہ بس منتظر تھی، بس دعا گو تھی۔ وہ گھنٹوں آسمان کی طرف نگاہ کیے۔ کسی معجزے کی کرن کی تلاش میں۔ یقین دل میں لیے کہ کوئی تو آئے گا۔ کوئی تو سہارا بنے گا، کوئی تو ان کا درد سمجھے گا۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔
یہاں انسانوں کی زندگی کی قیمت نہیں، صرف عہدوں کی حرمت ہے۔ یہاں وزیر کے بچوں کے لیے پوری ریاست کی مشینری حرکت میں آ جاتی ہے اور عوام؟ ان کے حصے میں صرف دعائیں، جنازے اور خاموشی آتی ہے۔
ریاست اپنی فرعونیت میں مست، جس کے لیے وزیروں کے بچوں کی جان قیمتی اور عوام کی جان فقط ایک اعداد و شمار۔۔
سانحہ ایسا ہے کہ اس پر کوئی سیاسی حوالہ دینا بھی بے حسی کے مترادف ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی صوبے میں پیش آئے۔ پہلا سانحہ جب رونما ہوا، تو صوبائی ہیلی کاپٹر حکمران جماعت کے چیئرمین کی دسترس میں تھا۔ عوام مر رہے تھے اور طاقت اُڑ رہی تھی۔
صوبائی حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اگر کل کو کسی احتجاج کی کال دی جائے۔ تو پوری ریاستی مشینری، فائر بریگیڈ، ریسکیو ٹیمیں، کرینیں، وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کے لیے لمحوں میں اکٹھی ہو جاتی ہے اور اس سب کے دوران، صوبے کا وزیراعلٰی فخر سے کہتا ہے: "یہ سب میرے اختیار میں ہے، جیسے چاہوں استعمال کروں! "
اب آتے ہیں ایک سیاسی کارکن کی سوچ کی طرف، جس کی زندگی کنویں کی مینڈک سی ہے، اللہ ہی پوچھے اُن سے، جو ہر پوسٹ، ہر جملے، ہر تاویل میں اقتدار کے چہروں کی پردہ پوشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
کیا کوئی حکمرانوں سے یہ سوال پوچھے گا کہ پہلا زخم بھی کافی نہ تھا؟ کیا سانحہات بار بار دروازہ کھٹکھٹائیں گے تب جا کے ہوش کے دریچے کھلیں گے؟ وہ مقام، جو سیاحوں سے ہر موسم آباد رہتا ہے۔ وہاں کوئی مستقل امدادی ٹیم کیوں نہ تھی؟
یا پھر یہ وہی ریاست ہے جس کی آنکھ صرف احتجاج کی گلی میں کھلتی ہے جبکہ مصیبت کی وادی میں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی ہے۔۔
مجھے آج بھی یاد ہے، 2022 کا وہ لمحہ جب بولان کی وحشی وادیوں میں۔ میں ایک سیلابی ریلے کے بیچ زندگی اور موت کی کشمکش میں پھنسا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو شاید لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، یہ ایک ایسا منظر تھا جو وقت کے صفحات پر ہمیشہ کیلئے نقش ہوگیا ہے۔
تفصیل کبھی اور سہی، کیونکہ آج کا موضوع ہے: "ریاست کی بے حسی"۔ تین دن تک بچے، عورتیں، بوڑھے، سب کے سب بھوکے، پیاسے اور ہر امید سے خالی۔ نہ کوئی پوچھنے والا، نہ کوئی پہنچنے والا۔ ریاستی نظام گویا اپنے ہی قلعوں میں قید تھا اور ہم فطرت کے بے رحم ہاتھوں میں لاچار۔۔
تین دن، تین طویل صدیوں کی مانند۔ نہ کوئی آواز آئی، نہ کوئی سہارے کو بڑھا ہوا ہاتھ۔
ریاستی ادارے اُس وقت بھی کہیں بند کمروں میں، نرم صوفوں پر خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ گویا عوام کی فریاد ان کے ایئرکنڈیشنڈ دفاتر تک پہنچ ہی نہ سکتی تھی۔
جب بے بسی نے انا کو دفنا دیا، تو ہم نے فطرت کو للکارا۔ بی بی نانی پل پر بہتا ہوا پانی ہمیں اس طرح گھور رہا تھا جیسے وہ ہمیں نگلنے کو بے تاب ہو۔ ہم نے قدم رکھا اور پانی نے جیسے پیروں سے زمین کھینچ لی۔ قدم لڑکھڑائے، سانسیں الجھنے لگیں اور دل کے نہاں خانوں سے یادیں چیخنے لگیں۔
اُس لمحے میری آنکھوں کے سامنے ایک ایک چہرہ آنے لگا، ماں کی دعا، باپ کا سایہ، بہن بھائیوں کی مسکراہٹ اور پھر وہ چہرہ، جس سے میرا رشتہ کسی تعریف، کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ محبت ہے، خاموش، گہری، مگر مکمل۔ جیسے دل کے کسی گوشے میں وہ ہمیشہ سے بسی ہو اور میں ہر مشکل لمحے میں بس اُسی کو محسوس کرتا ہوں۔
میں نے اپنے وجود کو بکھرتے ہوئے محسوس کیا۔ جیسے وقت نے لمحہ بھر میں سب چھین لینے کی ٹھان لی ہو۔ ہم، جنہیں کبھی کسی کی آغوش نے پالا تھا۔ آج پانی کی بے رحم موجوں میں بے آواز چیخ بن کر بہہ رہے تھے اور پھر۔
قدرت نے وہ کام کیا جو ریاست کو کرنا تھا۔ کچھ لمحوں بعد، جیسے قدرت نے رحم کھا لیا ہو۔ پانی نے ہمیں کنارے پر اچھال دیا۔
جیسے کسی نے نئی زندگی تھما دی ہو، بغیر صدا، بغیر کسی سوال کے۔ مگر ریاست؟ وہ آج بھی ساکت ہے۔
بے حس، فرعون اور عوام سے بیگانہ۔ جیسے ہم اُس کے شہری نہیں، صرف ایک بوجھ ہوں یہ نئی زندگی ہے، مگر ریاست اب بھی بے حس ہے اور فرعونیت اب بھی زندہ ہے۔
اللہ خود حساب لے اُن فرعونی ذہنوں سے، جنہوں نے اقتدار کو معبود اور عوام کو بوجھ سمجھ لیا۔ جن کی کرسیوں نے ان کے دل سے رحم اور آنکھوں سے آنسو چھین لیے۔
دعا کریں کہ آپ کبھی اس بے بسی کا شکار نہ ہوں۔ کیونکہ جب وقت آن پہنچتا ہے، تو ریاست کا چہرہ فرعون سے بھی زیادہ سنگدل لگتا ہے۔
آخر میں، آپ سب سے دل کی گہرائیوں سے گزارش ہے کہ اُن مرحومین کے لیے ایک بار مغفرت کی دعا ضرور فرمائیں۔ شاید ہماری ایک دعا اُن کی آخرت کا چراغ بن جائے اور ہمیں اس دعا کے بدلے کسی دن اپنی بے بسی کے لمحے میں اللہ کی رحمت نصیب ہو۔۔

