Rishte, Asasa Ya Bojh?
رشتے: اثاثہ یا بوجھ؟

شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ 14 اگست جیسے دن پر یہ موضوع کیوں چُنا گیا؟ مجھے اِس دن کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے، یہ دن اُن عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جن کے طفیل ہمیں یہ آزاد سرزمین نصیب ہوئی۔ مگر آج میں آزادی کے نغمے نہیں چھیڑوں گا، نہ ہی جذباتی تقریریں کروں گا، کیونکہ میرے دل میں ایک خلش ہے۔ ایک ایسا احساس جو چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ شاید ہم سے یہ آزادی سنبھالی نہیں گئی۔
بلوچستان میں پچھلے کئی دنوں سے نیٹ ورک مکمل طور پر معطل ہے، یعنی ایک پورے خطے کو ملک سے جوڑنے والا رشتہ منقطع ہے۔ اس کشمکش اور محرومی کے بیچ میرا ضمیر آج کسی جشن کی اجازت نہیں دیتا۔ اس بات سے یہ مت اخذ کرلیجیئے کہ میں محب وطن نہیں ہوں، میرے لیے وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور پاکستان ہمیشہ میرے دل کی دھڑکن ہے۔
آج میں ایک اور اہم معاشرتی مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں اور صرف وہ بات کرنے کے لیے، وائی فائی کی سہولت حاصل کرنے کیلئے، مجھے اپنے گاؤں سے 30 کلومیٹر کا سفر طے کرکے شہر آنا پڑا ہے۔
ہر دن ایک نئی اُمید، ایک نیا امکان لے کر طلوع ہوتا ہے۔ ہم نیند کی نرم چادر سے باہر نکل کر زندگی کی سخت زمین پر قدم رکھتے ہیں، اپنے حصے کا کردار نبھانے کے لیے۔ کچھ دن آسانی سے گزر جاتے ہیں تو کچھ تھکن، اُلجھن اور آزمائش کا پیغام لاتے ہیں۔ مگر اصل خوبصورتی تو اسی میں ہے کہ ہم ان حالات کا سامنا کس ظرف سے کرتے ہیں۔
ایک محبت بھرا لہجہ، ایک نرم مسکراہٹ یا مدد کو بڑھا ہوا ہاتھ، یہ وہ چھوٹے عمل ہیں جو کسی کے دن کو روشن کر سکتے ہیں۔ لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کہا مگر وہ یہ کبھی نہیں بھولتے کہ "آپ نے انہیں کیسا محسوس کروایا"۔
رشتے، اگرچہ لفظوں میں محض چند حرفوں کا مجموعہ ہیں جیسے کہ ر ش ت ے، مگر دلوں میں پوری زندگی کا بوجھ سمیٹے ہوتے ہیں۔ کبھی یہ رشتے مسکراہٹوں کا سبب بنتے ہیں اور کبھی آنکھوں کی نمی کی وجہ۔ بعض اوقات یہ رشتے ایسے سایوں کی مانند ہوتے ہیں جو دھوپ میں سائباں بن جاتے ہیں اور کبھی یہی سائے اندھیری راتوں میں خوف بن کر چھا جاتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ رشتے کیا ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر رشتہ نبھانے کے لائق ہے؟ کیا ہر تعلق دل پر بٹھانے کے قابل ہے؟ اور کب ایک رشتہ محبت سے نکل کر صرف ایک معاشرتی مجبوری، ایک سماجی بوجھ بن جاتا ہے؟
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم رشتوں کے نام پر خود کو ان تعلقات میں قید رکھتے ہیں جو نہ دل کو سکون دیتے ہیں نہ عزت۔ صرف اس لیے کہ "رشتہ ہے"
لیکن کیا رشتہ صرف لہو کا بندھن ہوتا ہے؟
یا وہ احساس جو ایک دوسرے کی تکلیف پر دل میں بےچینی پیدا کر دے؟
رشتے اگر صرف خون کے تقاضوں پر قائم ہوتے، تو حضرت یوسفؑ کنویں میں نہ پھینکے جاتے، ہابیل اپنے سگے بھائی قابیل کے ہاتھوں قتل نہ ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر زخم پرایا نہیں ہوتا، کچھ گہرے زخم اپنوں کے ہاتھوں لگتے ہیں۔
رشتے اصل میں احساس سے بنتے ہیں اور احساس سے ہی جڑتے ہیں۔ جہاں احساس مر جائے، وہاں صرف رشتہ داری باقی رہ جاتی ہے، رشتہ نہیں۔
رشتہ صرف خون کا نام نہیں ہوتا بلکہ یہ احساس، اخلاق اور خلوص کا دوسرا نام ہے۔ جب کسی تعلق سے نرمی، اپنائیت اور احترام کا رنگ اُتر جائے اور اس کی جگہ تلخ لہجے، طنز اور حقارت آ جائیں تو پھر وہ رشتہ محض ایک مجبوری بن جاتا ہے۔
ایسے دکھ دینے والے رشتوں سے فاصلے اختیار کرلینا دراصل خود پر ایک احسان ہوتا ہے۔ رشتہ وہی معتبر ہوتا ہے جو عزت دے، دل کو سکون بخشے اور خاموشی سے آپکے دکھوں کا بوجھ بانٹ لے باقی سب رشتے صرف نام کے بندھن ہوتے ہیں جو وقت کے تھپیڑوں میں خود بخود بکھر جاتے ہیں۔۔
ہم سب کی زندگی میں کچھ رشتے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو بظاہر مسیحا بنے ہوتے ہیں مگر درحقیقت اپنی فطرت میں شرارت، انا اور زہر بھرے لہجے کے پیکر ہوتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو ہماری کہانی کے ولن ہوتے ہیں، لیکن خود کو ہمیشہ ہماری خیر خواہی کی مسند پر بٹھا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کا اصل ہنر ہوتا ہے آپ کو لفظوں کے خنجر سے زخمی کرنا، آپ کی خود اعتمادی کو کچلنا اور پھر اُس اذیت پر خاموش مسکراہٹ سجانا۔
ایسے رشتے نہ تو سایہ دیتے ہیں، نہ سکون، بلکہ وقت کے ساتھ آپ کے جذبوں کا خون کرتے ہیں۔ آپ کے ہر خواب کو طنز کی صلیب پر لٹکاتے ہیں اور ہر کوشش کو ناقدری کی دھول میں دفن کر دیتے ہیں۔ یہ رشتے رشتہ داری کے لبادے میں لپٹے وہ بوجھ ہوتے ہیں جنہیں نبھانا فرض تو ہوتا ہے، مگر دل کبھی تسلیم نہیں کرتا۔
ایسے تعلقات مجبوری بن جاتے ہیں اور مجبوری وہ زنجیر ہے جو انسان کے جذبے، اس کی پرواز، اس کی خوشیاں سب قید کر لیتی ہے۔ رشتہ وہی معتبر ہے جو سانسوں کو بوجھ نہ بننے دے، جو لفظوں میں زہر نہیں، مرہم رکھے، جو آواز میں تحقیر نہیں، اپنائیت لے کر آئے۔۔ لہٰذا، نرم گفتار اپنائیں اور اپنی کوشش میں کمی نہ آنے دیں۔ زندگی کامل نہیں مگر ہمارے رویے اسے بہتر بنا سکتے ہیں۔

