Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (5)
محنت یا تقدیر، جیتا کون؟ (5)

یہ ہے اُس الجھی ہوئی ڈور کا آخری سِرا اور اس معرکے کا آخری منظرنامہ، یعنی پانچواں اور حتمی باب۔
دل مطمئن تھا کہ میں نے اپنی طرف سے پوری جنگ لڑی، اپنی محنت کا ایک ایک قطرہ نچوڑ ڈالا اور آج۔۔ نہ صِرف کامیاب ہوا، بلکہ ایک وفاقی ادارہ بھی "سچ" کے سامنے گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔
میں نہیں جانتا تھا کہ میری تعیناتی ہوگی یا نہیں۔۔ لیکن میرا کام صرف یہ تھا کہ لڑنا اور اپنا حق مانگنا، تاکہ کل کو یہ خلش نہ رہے کہ میں نے کوشِش ہی نہیں کی۔
میں نے اپنی نیندیں قربان کیں، ذہنی سکون داؤ پر لگا دیا اور آج جب احاطہ عدالت سے باہر نکلا تو جیسے کوئی بوجھ میرے کندھوں سے ہمیشہ کیلئے اُتر چکا ہو۔
راولپنڈی اسٹیشن پُہنچا تو وہی پرانا بینچ تھا، مگر اِس بار چھ گھنٹے نیم غنودگی میں گزرے۔ آخِرکار، رات 12 بجے لاہور پہنچا۔
پورے 24 گھنٹوں کا سفر، جسم تو بے حد تھکا ہوا، مگر دل، دل مکمل طور پر مطمئن تھا۔
والدین کی بے پناہ سپورٹ کے بعد اگر کِسی کا ذکر کرنا لازم ہے تو وہ "سر عابد مُلتانی صاحب" ہیں، ایک سادہ مزاج، اصول پسند اور بے حد مخلص اُستاد، جِن کی رہنمائی میں میں نے لاہور میں نہ صرف "شارٹ ہینڈ" سیکھا بلکہ زندگی کے گہرے پہلوؤں کو سمجھنے کا ہنر بھی پایا۔
عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد، جب اگلے دن کِلاس میں پہنچا، تو سر عابد صاحب مسکراتے ہوئے بولے، "فرہاد۔۔ ویری گڈ! اور میری اِس جدوجہد کو کلاس میں مثال کے طور پر پیش کیا کہ یہ کہلاتی ہے "کوشش"۔
اُن کی حوصلہ افزائی میرے لیے کسی مرہم سے کم نہ تھی۔ وہ میری اِس تھکی ہاری مگر ثابِت قَدم جنگ پر بے حد خُوش تھے اور اُن کی آنکھوں میں چمکتی وہ خوشی، میرے حوصلے کو نئی توانائی دے گئی۔
اس کے علاوہ، میرے دوست، بلکہ بھائیوں جیسے ہمسفر، سیف مگسی اور معاویہ بلوچ، اِس تمام سفر میں لمحہ بہ لمحہ میرے سائے کی مانند ساتھ رہے۔ گویا اُنھوں نے دل سے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ میرے ہر زخم پر مرہم رکھنا اُن کا فرض ہے۔ ایسے مخلص رَفیق ہوں تو زخموں کی شدت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔
خیر، عدالت کے حُکم نامے میرے پاس محفوظ تھے۔ رمضان کی سہری اور افطاری کی روزمرہ کی مصروفیات کے بیچ، جب نیند کی گرفت سے نکل کر آنکھ کُھلی، تو آخِرکار وہی منتظر "انٹرویو کال لیٹر" واٹس ایپ پر موصول ہوا، وہی کال لیٹر جسے قسمت نے مجھ سے چھین لیا تھا مگر اب وہ دوبارہ میرے مقدر کا حصّہ بن چُکا تھا۔
وہ کال لیٹر اب محض ایک کاغذ نہیں رہا، بلکہ ایک یادگار، ایک تصویرِ فتح بن چکا تھا، جو شکست کے بعد حاصل ہوئی۔
22 مارچ کی صبح، میں ایک بار پھر اُمید اور اضطراب کا بوجھ اُٹھائے پِمز کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ "انٹرویو" کیلئے جا پہنچا۔ وہاں میری براہِ راست ملاقات یاسین صاحب سے ہوئی۔ وہ خاصے نرمی سے پیش آئے، بولے: "ہمیں اندازہ نہیں تھا، ہم چاہتے تھے کہ سب کچھ سو فیصد میرٹ پر ہو۔۔ مگر آپ کا نام کہیں بیچ میں کھوگیا"۔
یہ الفاظ میرے لیے نہ اعتراف تھے، نہ تسلی بس ایک رسمی وضاحت، ایک تاخیر سے آنے والی معذرت۔
پھر مجھے انٹرویو روم میں لے جایا گیا، جہاں اسسٹنٹ فنانس ڈائریکٹر اور ایک ڈاکٹر موجود تھے۔ مگر پہلا لمحہ ہی میرے حق میں نہ رہا جب انہوں نے مقدمے کے متعلق سوال کرکے گویا مجھے کسی "جرم کے کٹہرے" میں کھڑا کر دیا۔
میں نے چاہا کہ بات میرٹ کی ہو، سوال اہلیت کے ہوں، مگر سوالات ایسے تھے جیسے وہ مجھے فیل کرنا چاہتے ہوں۔
نہ پاکستان سٹدیز سے متعلق، نہ جنرل نالج، نہ کرنٹ افیئرز اور نہ ہی جاب ریلیٹڈ۔۔ بس کوئی اور ہی امتحان تھا۔
8 جنوری کے خوش نصیب امیدواروں سے صرف تعارف پوچھا گیا اور اُن کی تعیناتی ہو چکی تھی مگر میرے ساتھ یہ مختلف رویہ کیوں؟
پھر بھی میں نے اپنی تیاری پر بھروسہ کیا۔
7 سے 8 سوالات میں سے 5 کے تسلی بخش جواب دیے، 1-2 رہ گئے۔
انٹرویو تمام ہوا، میں راولپنڈی اسٹیشن پہنچا، جہاں ایک بار پھر وہی 6 گھنٹے کا اِنتظار میرا مُقدر ٹھِہرا۔ مگر اِس بار، وہ اسٹیشن محض ایک سفرگاہ نہیں تھا، وہ میری تھَکن کا عَکس، میری خاموشی کا آئینہ اور شاید میری اندرونی شکست کا پہلا گواہ بن چکا تھا۔
رات گئے لاہور واپس پُہنچا۔۔
آج اِس انٹرویو کو دو ماہ سے زائد ہو چکے ہیں، نہ کوئی جواب، نہ کوئی پیش رفت۔۔
کئی بار دل چاہا کہ دوبارہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں، مگر پھر سوچا۔۔
اگر رب چاہتا تو شاید اِتنی محنت کا صلہ اِسی دنیا میں مل جاتا شاید یہ اُس کی مشیت نہیں تھی۔
اب میں نے یہ مقدمہ عدالتوں سے اٹھا کر "اللہ کی عدالت" میں رکھ دیا ہے۔
اور سچ کہوں تو۔۔ میں تھک چکا ہوں۔
اب آپ ہی بتائیں۔۔ کیسی لگی آپ کو یہ جنگ جو میں نے نصیب کے خلاف لڑی؟
ایک ایسی جنگ، جو میرے عزم کو نوچتی رہی، میرے حوصلے کو لمحہ بہ لمحہ چیرتی رہی۔
کیا واقعی محنت کے باوجود کوئی ایسی غیر مرئی قوت ہے جو ہمارے خوابوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے؟
اُس "خلائی مخلوق" کو کیا نام دیا جائے جو انصاف کے ترازو پر بیٹھ کر خود ہی پلڑا جھکا دیتی ہے؟
آج پمز میں وہ اُمیدوار تعینات ہیں جن کے نمبر صرف 60 تھے اور میں۔۔ 78 نمبر لے کر بھی تقدیر کے در پر سوالی بن کر بیٹھا ہوں۔
تو پھر کیا یہ ان کا نصیب تھا؟
یا میرا حق، کسی اور کے نام لکھ دیا گیا؟ سوچیے گا ضرور۔۔
یہ طویل داستان اگرچہ یہاں تمام ہوتی ہے مگر اِس کے زخم، اس کے نقوش دل و دماغ پر عمر بھر کی گواہی بن کر ثبت ہو چکے ہیں۔
آخر میں تمام احباب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے ان پانچ مہینوں کی تھکن میں میرے لفظوں کو سہارا دیا، میرے حوصلے کی ٹوٹی ڈور کو اپنی دعاؤں سے باندھے رکھا اور میرے دل پر نرمی سے امید کا مرہم رکھا۔
قارئین کی محبت بھی میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جنہوں نے ہر سطر، ہر موڑ پر میرے سفر کو محسوس کیا اور اس اجنبی جنگ میں میرے ہمسفر بنے۔
اُن اَجنبی چہروں کو بھی سلام جن سے راہ میں سرسری ملاقاتیں ہوئیں۔
ان شاء اللہ زندگی نے مہلت دی، تو اگلے کالم میں کسی اور زخم کسی اور سوال کے ساتھ دوبارہ رُوبرو ہوں گے۔
تب تک کیلئے۔۔ اِجازت دیجیے۔
اللہ حافظ۔

