Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (4)

Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (4)

محنت یا تقدیر، جیتا کون؟ (4)

یہ ہے اُس اُلجھی ہوئی ڈور کا چوتھا سِرا جہاں ہم یہ جاننے کی جُستجو میں ہیں کہ محنت غالب آتی ہے یا تقدیر؟

اِرادہ تو یہی تھا کہ یہ حِصّہ آخری باب ہو، مگر بدقسمتی سے "ڈیلی اردو کالمز" کے ضوابط نے قلم روک لیا۔ یہ حصّہ 1200 الفاظ سے تجاوز کرکے 1600 تک جا پہنچی اور یوں فیصلہ ہوا کہ آپ کو اِختتام اب پانچویں حصے میں پڑھنے کو ملے گا۔

ہاں، البتہ مزید اختصار ممکن نہ تھا ورنہ وہ درد، وہ تھکن، جو روح و ذہن پر نقش ہو چکی ہے، الفاظ میں ڈھل ہی نہ پاتی۔ آیئے، اس سفر کے چوتھے مرحلے کا آغاز کرتے ہیں۔

یہ 11 فروری کی رات تھی، قریباً 11 بجے۔ اسلام آباد میں قیام کی سہولت نہ ہونے اور وقت کے مزید زیاں کے اندیشے نے مجھے مجبور کیا کہ میں نصف شب کے بعد لاہور سے ٹرین پکڑوں تاکہ صبح اسلام آباد پہنچ کر سماعت میں حاضر ہو سکوں اور پھر شام میں واپسی، گویا یہ 24 گھنٹے ایک طویل سفر میں سمو گئے۔

رات کے 12 بجے میں ایک بیگ تھامے ہاسٹل سے نکلا۔ سڑکیں سنسان تھیں، لوگ تھکن سے گھروں میں جا چکے تھے اور میں لاہور کو ایک دن کے لیے، وہ بھی اس پہر، خیر باد کہنے نکلا تھا۔

ریلوے اسٹیشن پہنچا تو کوئی نشست دستیاب نہ تھی، صرف اوپن ٹکٹ ہی ہاتھ آیا۔ ٹرین میں اتنی بھیڑ تھی جیسے پوری قوم راولپنڈی کا قصد لیے بیٹھی ہو۔ نیند کے باوجود، تین گھنٹے دروازے کے پاس کھڑا رہنا پڑا، بالآخر رات تین بجے ایک خالی برتھ نصیب ہوئی اور وہیں نیند کی زنجیروں میں جکڑ گیا۔

آنکھ کھلی تو خود کو خالی ڈبے میں پایا۔ معلوم ہوا کہ راولپنڈی کب کا آچکا ہے اور ٹرین اب پشاور روانگی کے دہانے پر ہے۔ یوں لگا جیسے کسی نادیدہ قوت نے بروقت جگالیا ہو۔

محض دو گھنٹے کی ادھوری نیند کے بعد میں سٹیشن کے قریب ایک ہوٹل جا پہنچا۔ چائے سے محبت میرے ذوق کا وہ گوشہ ہے جو ہر تھکن کا مداوا بن جاتا ہے۔ پنجاب کی سرزمین پر اگر کہیں واقعی چائے میں خلوص گھولا جاتا ہے تو وہ "کوئٹہ ہوٹل" ہی ہے۔ سو، وہاں سے ناشتہ کیا اور پھر بائیکیا بک کرکے اگلے مرحلے کی طرف روانہ ہوا۔

فجر کا وقت تھا، جسم تھکن سے چُور، دل اضطراب سے بھرا ہوا۔ 25 کلومیٹر دور واقع شرعی عدالت کے لیے روانہ ہوگیا۔

ڈرائیور بھائی نے صبح کی خالی سڑکوں کو غنیمت جانا اور شدید سردی میں 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مجھے شرعی عدالت کے ایک نئے گیٹ پر لے آیا۔ پہلی سماعت میں میں کِسی اور راستے سے گیا تھا، مگر آج ڈرائیور نے سپریم کورٹ کا نیا راستہ چنا، جو میرے لیے بالکل اجنبی تھا۔ میری تجسس بھری نگاہوں کے درمیان، ڈرائیور نے ایک اہلکار کے سامنے بائیک روک کر پوچھا، "پائی اے شرعی عدالت کتھے اے؟"

وہ اہلکار، جو غالباً اسلام آباد پولیس کا تھا، بغیر کوئی جواب دیے تیز گالیاں برسانے لگا، جیسے صبح سویرے بیوی سے جھگڑا ہوگیا ہو۔ میں حیران رہ گیا کہ ہمارے اکثر پولیس والے "شاہد جٹ" جیسے کیوں ہوتے ہیں؟ یہی ہے ہمارے حفاظتی اہلکاروں کی تربیت کی مختصر سی کہانی۔

شرعی عدالت کے گیٹ کے باہر گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جب میں نے گیٹ پر دستک دی تو گارڈ نے حیرت سے پوچھا، "جی، اِس وقت؟" میں نے رات بھر کے سفر کی روداد سنائی۔ پھر میں نے پوچھا، "سر، کیا شرعی عدالت کے دو دو گیٹ ہیں؟" اس نے کہا، "جی، اس گیٹ سے جج صاحبان آتے ہیں"۔ میری تھکاوٹ دیکھ کر نرم لہجے میں بولا "سات بجے تک اجازت نہیں، آپ یہاں انتظار کریں، پھر اسی گیٹ سے آپ کو کینٹین تک لے جاؤں گا تاکہ آپ فریش ہو سکیں۔

یہاں ایک موازنہ لازم ہے، ایک طرف یہ عاجز سیکیورٹی گارڈ تھا، جو گویا ہر کسی کی مدد کے لیے تیار بیٹھا تھا اور دوسری طرف وہ پولیس والا جس کی ذہنی کیفیت کچھ ٹھیک نہ لگ رہی تھی۔

خیر میں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور سامنے سپریم کورٹ کی عمارت پر نصب ترازو کو گھورتا رہا۔ گویا خود سے، نظام سے اور اس طویل سفر سے کوئی خاموش سوال کر رہا ہوں۔

کیا اِنصاف صرف ایک علامت ہے؟ کیا میری تھکن، میری صدا کبھی سنی جائے گی؟

سات بجے کینٹین میں جا بیٹھا جہاں 3 گھنٹے مسلسل اضطراب نے میری روح کو گھیر رکھا تھا۔

10 بجتے ہی میں 3rd floor پر واقع کمرہ عدالت کے باہر گیا اور دیکھا کہ آج پمز والے بھرپور تیاری کے ساتھ آئے ہیں، پانچ چھ افسران، نئے چہرے، تمام ریکارڈز کے ساتھ، گویا وہ میرے سچ کو "مسمار" کرنے آئے ہوں۔ مگر مجھے اپنے مقدمے پر پختہ یقین تھا۔

ان نئے چہروں میں ڈاکٹر مصباح بھی شامل تھیں، جنہیں غالباً اسسٹنٹ ایگزام کنٹرولر کہا جاتا ہے۔

خیر، ہم کمرہٴ عدالت میں داخل ہوئے۔ میں ایک طرف بیٹھ گیا، دوسری طرف پمز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر یاسین صاحب، اسسٹنٹ ایگزام کنٹرولر ڈاکٹر مصباح صاحبہ اور چند اجنبی چہرے موجود تھے۔

سماعت کا آغاز ہوا۔

جج صاحب نے میری طرف دیکھ کر پوچھا: "اگر آپ کچھ کہنا چاہیں تو بیان دے دیں، ورنہ ہم ان سے سنیں گے"۔

چونکہ میں پہلی سماعت میں ساری روداد سنا چکا تھا، سو میں نے کہا: "بسم اللہ کریں"۔

جج صاحب نے استفسار کیا: "جی، پمز کی طرف سے کون بات کرے گا؟"

یاسین صاحب نے فوراً ڈاکٹر مصباح کو آگے بڑھا دیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کافی پریشان لگ رہی تھیں۔

سوالات کا سِلسلہ شروع ہوا۔

ڈاکٹر صاحبہ نے ایک لمبی تمہید باندھی، جو کچھ پہلی سماعت کی تکرار معلوم ہوئی۔

جج صاحب نے جھنجھلا کر کہا: "دیکھیں، میرا سادہ سوال ہے۔ اُس دن بھی یہی پوچھا تھا کہ جب 60 نمبرز والا انٹرویو کے کیے اہل ہے تو پھر یہ Complainant فرہاد احمد 78 نمبرز کے باوجود کیوں نہیں؟ اِتنی سی تو بات ہے۔

چند لمحے خاموشی چھا گئی۔

پھر بےاختیاری سے ڈاکٹر مصباح بولیں: "جی، ہم معذرت خواہ ہیں۔ یہ complainant نہ صرف میرٹ پر تھا بلکہ "اوپن میرٹ" پر بھی پورا اترتا تھا۔

جب ہم نے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ IT glitch یا human error کی بنا پر، اس کا نام shortlisting میں شامل نہیں ہو سکا۔

میں اِسی بیچ سوچنے لگا، کیا تقدیر نے پھر کوئی نیا چولا پہن لیا ہے؟

اب وہ IT glitch کے نام سے جلوہ گر ہے۔

اور میرے خواب۔۔ محض سسٹم کی خرابی میں کہیں گُم ہو گئے۔

جج صاحب نے یاسین صاحب کو مُخاطب کیا اور کہنے لگے۔

"آپ لوگ تو بُری طرح پھنس گئے تھے۔ اچھا ہوا ڈاکٹر مصباح کو آج آپ لوگ لے آئے۔

فیصلہ صادر ہوا:

30 دنوں کے اندر صاف اور شفاف انٹرویو لیا جائے اور اِس اُمیدوار کے ساتھ پہلے ہی زیادتی ہو چکی ہے، مزید اِس بناء پر اِسے نشانہ نہ بنایا جائے کہ اِس نے آپ کو عدالتوں کے چکر میں ڈال دیا، یہ اِس کا حق تھا۔

خیر آگے چل کر ثابت ہوا کہ یہ "صاف اور شفاف" کی تمہید بھی ویسی ہی نکلی، جیسے پاکستان میں صاف و شفاف انتخابات کا تماشا۔

میں اُس دن کمرہٴ عدالت سے یوں نکلا جیسے اپنی ساری تَھکن، ساری اُلجھنیں وہیں کسی میز پر رکھ آیا ہوں۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam