Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (3)

Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (3)

محنت یا تقدیر، جیتا کون؟ (3)

اُمید ہے آپ سب دوسرا حصہ پڑھ چکے ہوں گے اور شاید کسی نہ کسی نتیجے پر بھی ضرور پہنچے ہوں گے کہ تقدیر نے محنت کے باوجود مجھ پر ایسا خاموش وار کیوں کیا؟

خیر، میں نے اپنی طرف سے ہر مُمکن کوشِش کی کہ اپنی فریاد پِمز ہاسپیٹل تک پہنچا سکوں، مگر سرکاری نظام جیسے خوابِ غفلت میں ہو۔ دو دن میں درجنوں دفتری نمبرز آزمائے اور ہر طرف سے ایک ہی جواب ملا: "شکایت تحریری طور پر بھیجیں" جبکہ انٹرویو میں صرف 7 دن باقی تھے اور تحریری شکایت کو بلوچستان سے اسلام آباد تک پہنچنے میں ہی نِصف وقت گزر جانا تھا۔

یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وقت ہاتھوں سے ریت کی مانند پھِسل رہا ہو۔

ہر نمبر، ہر دفتر محض ایک اور دروازے کی طرف بھیجتا رہا۔ گویا ہر اہلکار نے ایک ہی جملہ رٹ رکھا ہو: "یہ معاملہ فلاں صاحب دیکھتے ہیں"۔

خیر، اگلی صبح گاؤں سے شہر گیا، تمام شواہد کے ساتھ پمز کو تحریری شکایت ارسال کردی۔ اسی شب وزیراعظم پورٹل اور شرعی عدالت میں بھی فریاد درج کردی۔

6 جنوری کے دن TCS کا پیغام موصول ہوا کہ میری شکایت مطلوبہ ایڈریس پر یعنی پمز ہاسپیٹل، ایک خاتون، سائرہ، نے وصول کرلی ہے۔ لیکن کوئی ردعمل نہ آیا۔

جیسے وہ تحریر شدہ فریاد کہیں اغوا ہو چکی ہو یا شاید کسی میز کی دراز میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دی گئی ہو۔ اللہ ہی پوچھے اِن سے اور جِس دَر پر میں نے آخری اُمید سے دستک دی تھی، یعنی شرعی عدالت اور وزیراعظم پورٹل۔

وہاں سے بھی محض خاموشی لوٹی اور یوں انٹرویو کی تاریخ گزر گئی مگر میری فریاد کسی میز کی دراز میں دبی کی دبی رہ گئی۔

وقت گزرتا گیا اور میں سوچتا رہا: کیا واقعی محنت اور صلاحیت کی کوئی حیثیت باقی ہے؟

یا یہ نظام صرف اُنہی کے لیے سازگار ہے، جو اتفاق سے "درست وقت" پر "درست فائل" بن جائیں؟

خیر، کسی نہ کسی طرح ایک قریبی دوست، جو شرعی عدالت لاہور میں تعینات تھے، ان سے رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ میری سماعت 29 جنوری کو مقرر کی گئی ہے اور جلد عدالت کا تحریری نوٹس بھی موصول ہو جائے گا۔ یہ سنتے ہی جیسے دبی ہوئی امید نے پھر سے سر اُٹھایا۔ ایسا لگا، شاید اب میری محنت رنگ لائے گی۔

لیکن دل میں ایک عجیب سی کشمکش تھی۔ سوچ رہا تھا کہ ایک عام فرد ہو کر، ایک بڑے اور بااثر ادارے، وہ بھی پمز ہاسپیٹل جیسے نامور ادارے سے قانونی جنگ لڑنا، کیا واقعی عقلمندی ہے؟

کہیں ایسا نہ ہو کہ انصاف کی راہ میں اپنا تشخص ہی داغدار کر بیٹھوں۔ مگر جب والد صاحب کو یہ ساری صورتحال بتائی کہ شرعی عدالت میں 29 تاریخ کی سماعت رکھی گئی ہے تو اُن کے لہجے میں جو غصہ، درد اور مایوسی تھی، وہی میرے ارادے کو حوصلے میں بدل گئی۔

کہنے لگے: "بیٹا! ایک ایک بات رکھنی ہے اُن کے سامنے، پیسے کی فکر نہ کر میں بھیج دوں گا۔

لیکن اگر اب بھی خاموش رہے تو کل یہ ظُلم کسی اور دہلیز پر دستک دے گا۔ اچھا ہے کہ یہ عدالتوں کا چکر کاٹیں تاکہ جان سکیں کہ جوابدہی کیا ہوتی ہے اور میں، جو لمحہ بھر پہلے ہار کے کنارے پر تھا، اُن کے لہجے کا حوصلہ سن کر یوں سنبھلا جیسے میرے پیچھے کوئی سایہ نہیں، کوئی پہاڑ کھڑا ہو۔

خاموش، مضبوط اور ناقابلِ شکست!

یقیناً، آپ سب بخوبی جانتے ہوں گے کہ ایک متوسط طبقے کے گھر میں تنخواہ ہمیشہ اخراجات سے کم ہوتی ہے۔

اسی لیے 29 جنوری کی سماعت میرے لیے مالی لحاظ سے بھی ایک بھاری مرحلہ تھا۔

مگر والد صاحب کی بےلوث تائید نے میرے متزلزل قدموں کو حوصلہ بخشا۔

اسی حوصلے کو سینے سے لگائے، میں ایک دن پہلے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوا تاکہ اگلی صبح بروقت شرعی عدالت اسلام آباد پہنچ سکوں۔ اگلی صبح جب احاطہ عدالت میں قدم رکھا تو دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوگئی۔ قدم تو اندر آ چکے تھے، مگر ذہن میں سوالات کا ہجوم تھا۔

وہ کیسے دفاع کریں گے؟ مجھے کیا کچھ بیان کرنا ہوگا؟

کیونکہ یہ اُس طرز کی عدالت تھی جہاں مُدعی نہ صرف فریادی ہوتا ہے، بلکہ وکیل بھی خود ہی بنتا ہے اور اپنے حق کی جنگ بھی تنہا ہی لڑتا ہے۔

حاضری لگائی، جیسے کوئی سپاہی معرکے سے پہلے صفِ جنگ میں اپنا نام لکھوا رہا ہو۔

دروازے پر کھڑے دربان نے آواز لگائی: "فرہاد احمد اور پمز ہاسپیٹل کا نمائندہ اندر آئیں"۔

ہم دونوں داخل ہوئے۔

ایک طرف میں بیٹھ گیا اور دوسری جانب پمز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد یاسین صاحب۔

جج صاحب نے پہلا سوال مجھ سے کیا: "جی فرہاد صاحب، تفصیل سے بتائیں، آپ کے ساتھ کس نوعیت کی ناانصافی ہوئی؟

میں نے پورا ماجرا بیان کیا، پانچ منٹ پر محیط ایک طویل اور دل کی گفتگو۔ جج صاحب نے دورانِ گفتگو چند نپے تلے سوالات کیے اور میں ہر سوال کے جواب کے ساتھ ساتھ اپنا مُقدمہ مزید مضبوط کرتا چلا گیا۔

جج صاحب نے پمز کے افسر کی طرف رخ کرکے کہا: جی، آپ بتائیں، آخر آپ نے اِن صاحب کو انٹرویو کے لیے کیوں نہیں بلایا؟

یاسین صاحب نے جواب دینے کے بجائے روایتی دفتری انداز اپنایا، ادھر اُدھر کی باتیں، اعداد و شمار کی گردان، کہ ہم نے اتنے امیدواروں کا امتحان لیا، یہ ہوا، وہ ہوا وغیرہ وغیرہ۔

جج صاحب نے اُن کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے قدرے برہم لہجے میں کہا:

"میرا سوال بہت سادہ ہے: جب آپ نے بلوچستان کے ایک امیدوار کو صرف 60 نمبرز پر انٹرویو کے لیے بلایا۔ تو پھر اس شکایت کنندہ کو 78 نمبرز کے باوجود کیوں نظرانداز کیا؟"

پمز کے افسر کے پاس نہ کوئی معقول جواب تھا، نہ تیاری۔ یوں لگا جیسے ایک خاموش اعترافِ غلطی، عدالت کے کمرے میں پھیل گیا ہو۔

جج صاحب نے برہمی کے ساتھ واضح ہدایت دی کہ اگلی سماعت میں مکمل ریکارڈ اور پختہ تیاری کے ساتھ حاضر ہوں اور عدالت میں گریڈ 19 یا 20 سے کم کا کوئی افسر پیش نہ ہو ورنہ فیصلہ مدعی کے حق میں سنایا جائے گا۔ اگلی سماعت 12 فروری کو مقرر کی گئی۔

میرے دل میں امید کی ایک نئی کرن جاگی۔

خیر، پیشی کے بعد جب میں راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسلام آباد ایکسپریس شام 6 بجے روانہ ہوگی اور گھڑی کی سوئیاں ابھی صرف دوپہر کے 12 بجا رہی تھیں، یعنی چھ گھنٹے کا طویل، تنہا انتظار۔

یہ انتظار آج بھی یاد آتا ہے، جب میں اسٹیشن کے ایک سُنسان کونے میں جا بیٹھا اور بس لوگوں کو تَکتا رہا، ہر چہرہ ایک کہانی، ہر قدم ایک مقصد۔۔

کوئی غم میں ڈوبا تو کوئی خوشی سے چمکتا۔ کوئی مسافر تو کوئی منتظر۔ کوئی اپنا بوجھ اٹھائے۔ تو کوئی آنکھوں میں سوال لیے۔ یوں لگا جیسے اس اسٹیشن کی رونق، اس کی تھکن میرے اندر اتر گئی ہو۔

آگے چل کر وہی بینچ میرے لیے ایک عارضی مسکن بن گیا۔ مزید کئی گھنٹے اسی پر بیتے۔ وقت رینگتا رہا، لوگ آتے گئے اور میں۔۔ میں ایک خاموش تماشائی کی طرح بیٹھا۔ اس ریلوے اسٹیشن کی زندگی کو اپنی نظروں میں جذب کرتا رہا۔

"یوں لگا جیسے ان چھ گھنٹوں میں میں نے غم و خوشی کی ایک زندہ و جاوید نُمائش دیکھی ہو، جہاں ہر چہرہ الگ کہانی لیے پھر رہا تھا اور میں بس ان کا خاموش گواہ تھا۔

لاہور پہنچ کر میرا ذہن مکمل طور پر اگلی سماعت پر مرکوز تھا۔ یہ پیشی تقریباً حتمی تھی۔ شرعی عدالت کے ضوابط کے مطابق کسی بھی مقدمے کو زیادہ سے زیادہ 60 دنوں میں نمٹانا ہوتا ہے، جبکہ صرف کیس کی منظوری میں ایک مہینہ گزر جاتا ہے۔ اس لیے ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ دو سماعتیں مُمکن ہیں، جن میں سے ایک ہو چکی تھی، لہٰذا یہ پیشی آخری سمجھی جا رہی تھی۔

دل میں خدشہ بھی تھا کہ کہیں پمز میرے ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ نہ کر دے یا دفاع میں کوئی نیا مؤقف اختیار نہ کر لے۔

لاہور کی گلیوں میں لوٹ تو آیا مگر میرا ذہن اور دل کہیں دور، اگلی پیشی کی تیاری اور اس کے نامعلوم انجام میں کھوئے ہوئے تھے، جیسے کوئی تھکا ہوا مسافر جو سفر کے اگلے پڑاؤ کی فکر میں انجان راہوں پر گامزن ہو۔

سلسلہ جاری ہے!

ڈیلی اردو کالمز کے ضوابط اور آپ کے قیمتی وقت کا احترام کرتے ہوئے، میں اس داستان کو غیر ضروری طوالت سے بچانا چاہتا ہوں۔ اسی لیے اگلے حصے میں آپ کے سامنے اس کا "آخری حصہ" ہوگا، اس جدوجہد کی آخری جنگ کا منظرنامہ اور ساتھ ہی وہ انجام، جس نے طے کیا کہ بے شمار کوششوں کے باوجود نصیب نے کچھ بخشا۔۔ یا نہیں؟

تو آخری حصے کیلئے میرے ساتھ جڑے رہیے، تاکہ اس کڑوی حقیقت کا پتہ چل سکے جو نصیب نے میرے حصے میں لکھی ہے۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam