Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (2)

Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (2)

محنت یا تقدیر، جیتا کون؟ (2)

آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہم اِس پیچیدہ سوال کے اُس کونے کی گرہ کھولنے جا رہے ہیں جس کا جواب صدیاں گزرنے کے باوجود بھی مکمل نہ ہو سکا، کون غالب ہے؟ محنت یا تقدیر؟ شاید میری یہ ذاتی داستان، یہ مشاہدہ، آپ کو اِس سوال کے کسی کِنارے تک پُہنچا دے۔ یہ اِس سِلسلے کا دوسرا حِصّہ ہے اور اگر آپ نے پہلا حصہ پڑھا ہے تو آپ جانتے ہوں گے کہ کِس طرح تقدیر نے بھیس بدل کر میرے راستے میں رُکاوٹ کھڑی کی اور اب، اِس حِصے میں بھی وہی تقدیر، نئے روپ کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ کیسے؟

یہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہوگا۔ ہاں البتہ، اِس ساری کشمکش کے بعد ایک چیز جس پر میرا ایمان اور بھی پُختہ ہوا، وہ تقدیر، قسمت اور نصیب کا وجود ہے۔ کیونکہ اِس واقعے میں میری تمام تر محنت کے باوجود، میری تقدیر ہی مجھ پر غالب آ گئی تھی۔ سو، میری محنت کا مجھے کوئی پھل نہ مل سکا، "بس جیسے سب کچھ کسی اَن دیکھے ہاتھ نے چھین لیا ہو اور میں ہاتھ مَلتا رہ گیا"۔

تو آئیے، بغیر کِسی طویل تمہید کے، آغاز کرتے ہیں۔

اسکل ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد ہمیں تحریری امتحان کی تیاری کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا۔ میں تذبذب میں تھا کہ اسلام آباد میں رُکوں یا لاہور واپس جاؤں، جہاں کلاسز جاری تھیں۔ آخرکار یہی فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد میں ہی قیام کرکے مکمل یکسوئی سے تیاری کی جائے۔ تیاری دن رات جاری رہی مگر آخری دنوں میں اسلام آباد کی سرد راتوں اور مسلسل بارش نے طبیعت کا ساتھ نہ دیا۔ گلا بری طرح خراب ہوا، بخار نے بھی آ گھیر لیا اور پڑھائی جیسے تھم سی گئی، پھر بھی دن اِسی جدوجہد میں گزرتا رہا۔

بالآخر 16 نومبر کا دن آیا۔ میں اِمتحانی ہال میں verification کے مرحلے کے بعد داخل ہوا۔ ماحول پُرسکون تھا۔ میں نے اطمینان سے پرچہ حل کیا اور اُسی شام لاہور کے لیے روانہ ہوگیا۔ لاہور پُہنچتے ہی زندگی معمول پر واپس آ گئی، وہی کلاسز، وہی روٹین، وہی مصروفیات۔ لیکن دل و دماغ مُسلسل سوالات کی زد میں تھے: میرٹ کہاں جا کر رُکے گا؟ میرے نمبر کتنے آئیں گے؟ کیا نتیجہ گھر والوں کی توقعات پر پورا اُترے گا؟ بلوچستان سے اور کِتنے امیدوار ہوں گے؟

اِنہی خیالات کے ساتھ 5 دسمبر کی رات، میں ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر ایک ہوٹل میں بیٹھا کھانہ کھانے میں مصروف تھا۔ اتنے میں واٹس ایپ گروپ پر ایک پیغام آیا:

"پمز ہاسپیٹل کے تحریری امتحانات کا نتیجہ جاری کردیا گیا ہے"۔

ایسا لگا جیسے وقت ایک لمحے کو رُک سا گیا ہو۔ بھوک یَکدم غائب، ذہن جیسے سُن۔ ہاسٹل کی وائی فائی کی موجودگی میں انٹرنیٹ پیکج کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی تھی، مگر اُس رات حالات مختلف تھے، جیسے پورا جسم ایک ہی صدا میں ڈھل چکا ہو: "جلدی، ابھی، فوراً"۔

میرے قدم بےاختیار ہاسٹل کی طرف دوڑے اور ہر گزرتا لمحہ دل کی دھڑکن کو تیز کرتا گیا۔

ہاسٹل پہنچتے ہی، لرزتے ہاتھوں سے رول نمبر ڈالا اور پھر وہ لمحہ، جب اسکرین پر ایک عدد جگمگا اُٹھی: Out of 78/100۔

ایک پَل کو سب کچھ تَھم گیا۔ یہ محض ایک عدد نہیں، میری محنت کا حاصل تھا، جو تھکن میں بھی سکون دے گیا۔ محنت نے پہلی بار سرگوشی کی: میں رائیگاں نہیں گئی۔۔

دل نے کہا: شاید، میں واقعی بُہت قریب ہوں۔۔

مگر میں نہیں جانتا تھا کہ یہ محض ایک اور سیڑھی نہیں، بلکہ آزمائش کی ایک نئی دہلیز ہے، ایک اور معرکہ ابھی باقی تھا۔

اب شاید آپ سوچیں: 78 نمبرز؟ اوسط ہی تو ہیں! لیکن اگر آپ میرے صوبے کے زنگ آلود تعلیمی پس منظر سے واقف ہیں تو جان جائیں گے کہ یہ نمبرز وہاں کی میرٹ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب ہم نے پہلی بار انگریزی باقاعدہ چھٹی جماعت میں پڑھی اور ریاضی؟

ریاضی تو جیسے کبھی سمجھ ہی نہ آئی۔

استاد آتے، بلیک بورڈ پر کچھ لکھتے اور بنا کسی وضاحت، بنا کسی سوال جواب کے واپس چلے جاتے۔ نہ کوئی رہنمائی، نہ کوئی اصلاح۔

اسی لیے ریاضی میرے لیے ہمیشہ ایک ایسا آسیب رہا جس سے میں آج تک بھاگتا آرہا ہوں اور یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں، ہمارے صوبے کے کئی اسکولوں میں ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جنہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی تقرری کس علاقے میں ہوئی ہے۔

ایسے میں سوچیں کہ اِس اندھیر نگری میں بھلا کوئی کیسے پنجاب یا دیگر صوبوں کے طلبہ جیسا قابل بن کر نکلے؟

حتیٰ کہ ایک بار ایک ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر DEO سے عرض کی گئی کہ ایک گاؤں کے اسکول میں اساتذہ زائد اور دوسرے گاؤں کا اسکول برسوں سے ویران ہے، کیا ایک استاد کو وہاں تعینات نہیں کیا جا سکتا؟

وہ صاحب مسکرا کر بولے: جناب، کیوں خوامخواہ خوار ہوں؟ تنخواہ تو ویسے بھی مل رہی ہے، پھر کس بات کی ٹینشن؟

یہ محض جملہ نہیں بلکہ ہمارے تعلیمی نظام کی قبر پر پڑھا جانے والا نوحہ تھا!

ایسی سوچ کے سائے میں پروان چڑھنے والی نسل سے قابلیت کی امید محض ایک "خام خیالی" ہی تو ہے۔

ہاں البتہ اُردو سے میری اُنسیت محض ایک مضمون کی حد تک نہیں بلکہ ایک رشتہ ہے جو بچپن سے والد کی تحریروں کے ذریعے جڑتا چلا گیا۔ والد صاحب فلاحی مزاج رکھتے ہیں اور عوامی مسائل پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں اکثر اُن کے پاس بیٹھا دیکھتا، وہ الفاظ کو صفحے پر ڈھالتے اور میں زیر زبر کے بغیر، اِس زبان کی تہہ تک پہنچنے کی معصوم اور ناکام کوشش کرتا۔

پھر وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی سفر نے بھی رُخ بدلا، گاؤں کی مٹی سے نکل کر جیکب آباد، وہاں سے کوئٹہ اور پھر لاہور کی درسگاہوں تک پہنچا۔ یہ سفر صِرف جغرافیائی نہیں تھا بلکہ علمی بھی۔ اس نے نہ صرف اردو بلکہ ہر مضمون کی بُنیاد کو پُختگی بخشی اور سوچنے لکھنے کا ایک نیا زاویہ عطا کیا۔

خیر، اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں مگر یہ تمہید اس لیے ضروری تھی، تاکہ قارئین چند باتیں جان لیں:

1- کیوں ہمارے صوبے میں میرٹ کی سرحدیں باقی صوبوں سے مختلف؟

2-کیوں میں 78 نمبرز لے کر بھی مایوس نہیں، بلکہ پُرامید تھا؟

جہاں عِلم کا آسمان دُھند سے ڈھکا ہو، وہاں معمولی روشنی بھی "چراغِ راہ" بن جاتی ہے۔

میں نے چند دوستوں سے اُن کے مارکس پوچھے، اکثر کے نمبر 60 کے آس پاس تھے۔ تب دل میں ایک امید نے آہستہ آہستہ سر اُٹھایا:

شاید۔۔ شاید میرا میرٹ بن جائے۔

یہ دسمبر کے آخری عشرے کی ایک سرد صبح تھی، جب میں موسمِ سرما کی چھٹیوں پر لاہور سے اپنے گاؤں آ چکا تھا، شاید 24 دسمبر کے قریب کا دن تھا۔

اچانک فیس بک پر کچھ امیدواروں کی پوسٹس سامنے آئیں کہ انہیں "پمز ہاسپیٹل کی طرف سے انٹرویو لیٹر موصول ہو چکا ہے"۔

یہ پڑھتے ہی جیسے دِل میں ایک بےقراری کی لہر دوڑ گئی۔ پھر تو ہر دن، جیسے ایک مہینے جتنا طویل ہوگیا۔

ہر صبح ایک نئی اُمید کے ساتھ جاگتا اور ہر شام نااُمیدی کے سائے میں ڈھل جاتی۔

دل میں ایک ہی خیال گردش کرتا: شاید آج میرا لیٹر آ جائے، مگر پانچ چھ دن بیت گئے۔

کئی دوسرے امیدواروں کو لیٹر موصول ہو چکے تھے مگر میرے نام پر مسلسل خاموشی چھائی رہی۔ میں نے خود کو تسلی دی: شاید میرٹ کافی اوپر چلا گیا ہو۔

لیکن مجھے حیرت اُس وقت ہوئی جب پتہ چلا کہ میرے ہی صوبے سے کچھ امیدوار، جن کے نمبر صرف 60 تھے، اُن کو بھی انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا ہے اور میں، جس کے نمبر 78 تھے، حیرت، خاموشی اور مایوسی کا مجسمہ بن کر رہ گیا اور شاید آپ یہ سمجھیں کہ یہ، سفارشی نظام کی وجہ سے ہوا، مگر وہ بھی نہیں تھا، جس لڑکے کو انٹرویو کال آیا تھا، وہ ایک غریب گھرانے سے تھا۔

جب گھر والے پوچھتے تھے کہ کچھ پتا چلا، کب آئیگا تمہارا لیٹر؟ تو میں ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بس اتنا کہہ پاتا کہ "امید ہے، جلد آ جائے گا۔۔ "

اور اس کے سِوا میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جب اُنہیں یہ معلوم ہوا کہ مُجھ سے کم نمبر لینے والے امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا ہے، تو وہ خاموش ہو گئے۔

ایسی خاموشی جو لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی، اُن کی نظریں مجھ سے سوال کرتی تھیں اور میں بس جیسے کِسی خاموش سمندر میں ڈوبتا جا رہا تھا۔ نہ آواز، نہ سہارا، نہ کوئی کنارا۔

یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب انسان نہ خود کو سمجھ پاتا ہے، نہ ہی دوسروں کو سمجھا پاتا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں، اِس پر کیا کہا جائے؟ کیا یہ تقدیر ہے جو محنت کے باوجود بھی ایسی زیادتی کر گئی؟ یا سب کچھ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، چاہے میں کتنے ہی نمبر لے آؤں؟ شاید آپ کے سامنے یہ معاملہ پہلی بار آیا ہو، لیکن میری تقدیر۔۔

میری تقدیر ہمیشہ میرے خِلاف صف آرا رہی ہے۔

آپ کو یاد ہے نا؟ پہلے حِصے میں بھی میرا نتیجہ تقدیر نے چُرا لیا تھا؟

اور آج، ایک بار پھر وہی خاموش واردات، وہی اندھیر نگری، فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار دل تھک چکا تھا، امید ہارنے لگی تھی اور مایوسی نے مکمل قبضہ جما لیا تھا۔ میں پھر اُسی تاریکی میں جاگِرا، جہاں نہ کوئی صدا تھی، نہ کوئی جواب، بس ایک خاموش چیخ جو اندر ہی اندر گھُٹتی جا رہی تھی۔

خیر، تقدیر کی اِس خاموش واردات کے باوجود بھی میں PIMS ہاسپیٹل کے افسران کو عدالتوں میں لا کھڑا کروں گا، اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کروں گا، چاہے ذہنی، جسمانی اور مالی تھکن میرے وجود کو چُور چُور کر چکی ہو۔

مگر میں اُن میں سے نہیں جو تھک کر بیٹھ جائیں۔

اک طرف 21 سال کا ایک طالبعلم۔ اور دوسری طرف ایک پورا ادارہ اور وہ بھی وفاق کا!

اگر میں زیادہ کچھ نہ بھی کر سکا تو کم از کم اِتنا ضرور کر جاؤں گا کہ اِن کی ساکھ پر وہ دھبہ چھوڑوں جو اِنہیں آئندہ ہر میرٹ بناتے وقت سوچنے پر مجبور کرے!

کہ کسی طالبعلم کے ساتھ ناانصافی کرکے آپ یہ فرض نہیں کر سکتے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوتی۔

اس جدوجہد کا اگلا باب آپ کو کالم کے اگلے حصے میں ملے گا۔

(سلسلہ جاری ہے)

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari