Mehnat Ya Taqdeer, Jeeta Kon? (1)
محنت یا تقدیر، جیتا کون؟ (1)

ذرا تصور کیجیے۔۔ ایک جھلستی دوپہر میں آپ اور آپ کی زندگی کے تمام خواب، تمام تمنائیں اور والدین کی دعاؤں سے لپٹے خواب، پسینے سے شرابور چہروں کی مانند قطار میں کھڑے ہوں اور سانس روکے کسی فیصلے کے منتظر۔
ایسے میں دل کے کسی کونے سے ایک سوال ابھرتا ہے: کیا سب کچھ ہماری محنت کے اختیار میں ہے؟ یا وہ سب پہلے ہی تقدیر کی بےرنگ سیاہی سے لکھا جا چکا ہے؟
محنت، جو چٹان سے ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتی ہے اور تقدیر۔۔ جو اکثر سادہ چہرے میں آ کر پیچیدہ امتحان دے جاتی ہے۔
یہ کہانی ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک سوال ہے، ایک کرب ہے، جو ہر اُس شخص کے دل میں پلتا ہے جو دن رات کی مشقت کے باوجود غیر یقینی کے اندھیروں میں سسکتا ہے۔
کیا قسمت ہماری کوششوں کا مذاق اُڑاتی ہے؟
شاید آپ اس تحریر کے اختتام پر خود کوئی فیصلہ کر سکیں اگرچہ یہ فیصلہ بھی آسان نہیں ہوگا۔
یہ چند لمحوں کی نہیں، بلکہ پانچ مہینوں کی تھکن، پریشانی اور آزمائش کی ایک سچی روداد ہے۔ جسے میں محض چند حصوں میں سمیٹ کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ شاید آپ بھی اس ابدی سوال کا کوئی سرا پا سکیں کہ آخرکار حاوی کون رہا؟ محنت یا نصیب؟
یہ اُس شخص کی کہانی ہے، جو جیت کر بھی ہار سا گیا اور جسے آج بھی سب سے زیادہ خوف اگر کسی چیز سے ہے، تو وہ ہے: تقدیر!
یہ نومبر کی ایک عام صبح تھی، جب میں لاہور کے ایک ہاسٹل کے بستر پر خواب کی کسی دھند میں گم تھا۔ اچانک موبائل کی بیپ پر آنکھ کھلی اور سامنے ایک EMAIL جگمگا رہی تھی، PIMS ہاسپیٹل اسلام آباد کی جانب سے اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا کمپیوٹر بیسڈ اسکل ٹیسٹ (Skill test) 9 نومبر کو اسلام آباد میں ہوگا۔ یہ وہی نوکری تھی جس کا اشتہار میں نے مئی یا جون کے دنوں میں نیشنل جاب پورٹل NJP پر دیکھا تھا۔ بلوچستان کا کوٹہ بھی موجود تھا تو دل نے کہا، کیوں نہ قسمت آزمائی جائے؟ فارم بھر دیا، وقت گزر گیا اور زندگی اپنے معمول پر لوٹ آئی۔ مگر نومبر کی اِس صبح، یہ EMAIL، جیسے ماضی کی خاک میں دبے خوابوں کو پھر سے تازہ کر گئی۔ کزن سے مشورہ ہوا، ٹرین کی ٹِکٹ ہاتھ میں لی اور ہم لاہور سے اسلام آباد کے سفر پر روانہ ہو گئے۔
اسلام آباد کی سرد رات کسی اجنبی مسافر کی طرح کٹی اور صبح جب پمز ہاسپیٹل کے باہر پہنچا تو ایک منظر جو شاید زندگی بھر کیلئے میرے دل و دماغ پر نقش ہوگیا، سامنے ہزاروں چہرے، آنکھوں میں چمک، پیشانیوں کی شکنیں اور دلوں میں دبی دعائیں ایک جیسی تھیں۔ ہر کوئی ایک خواب لیے آیا تھا، ایک نصیب کے سہارے، ایک امید کے ساتھ، کہ شاید آج تقدیر مہربان ہوجائے! شاید آج قسمت کا در کھلے!
چونکہ یہ پورے ملک میں واحد ٹیسٹ سینٹر تھا، سو ملک کے ہر کونے سے نوجوان اپنی اپنی تقدیر کا سوالیہ نشان لیے یہاں جمع تھے۔ دھوپ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور ہم سو کے قریب امیدوار قطار میں کھڑے، اپنے اپنے نصیب کے انتظار میں پسینے سے شرابور تھے۔ وقت جیسے سست روی سے رینگ رہا تھا۔ گھنٹوں کی اس تلخ دھوپ، تھکن اور بے یقینی کے بعد بالآخر ہماری شفٹ کی پکار ہوئی اور ہم آگے بڑھے، جیسے کسی معرکے کی جانب۔ جب میں کمپیوٹر ہال میں داخل ہوا، تو اندر ایک گھمبیر خاموشی اور انجانی سی گھٹن نے لپیٹ میں لے لیا، جیسے یہ ہال نہیں، کوئی عدالت ہو، جہاں ہر ایک کے خوابوں کا فیصلہ ہونا تھا۔
یہ میری زندگی کا پہلا اسکل ٹیسٹ تھا۔ ہاتھ کپکپا رہے تھے، دل کی دھڑکن سینے کی قید توڑنے کو بے تاب اور ذہن میں صرف ایک فلم چل رہی تھی، والدین کی آنکھوں میں چھپی امید، ان کے بے آواز سجدے اور ان کی خوابوں کی جھلک، جنہیں میں پورا کرنے نکلا تھا۔ وہ لمحے میری ہمت کا امتحان لے رہے تھے اور میں تقدیر کے کٹہرے میں خود کو کھڑا محسوس کر رہا تھا۔
پانچ منٹ کا وقت ملا اور جیسے ہی ٹیسٹ کا آغاز ہوا، وہ پانچ منٹ "پانچ سیکنڈز" کی مانند بیت گئے۔ ٹیسٹ ختم ہوتے ہی کمپیوٹر اسکرین پر نتیجہ نمودار ہوا اور میں کامیاب قرار پایا!
ایک لمحے کو دل جیسے تھم سا گیا، پھر سپیکر پر ایک اعلان گونجا: جو امیدوار فیل ہو گئے ہیں، براہِ کرم ہال سے باہر تشریف لے جائیں اور اگلی بار کوشش کریں اور جنہوں نے کامیابی حاصل کی ہے، وہ اپنی نشستوں پر موجود رہیں۔
ہر قطار پر ایک نِگران موجود تھا جو کامیاب امیدواروں کا نتیجہ USB میں محفوظ کر رہا تھا تاکہ پرنٹ نکالا جاسکے۔ میری باری آئی، اُس نے میری کارکردگی کو سراہا اور "Well done" کہا، میں صرف ہلکی سی مسکراہٹ ہی دے سکا اور شاید میرے اعصاب بھی اس سے زیادہ اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اسی اثناء میں اُس نے میری فائل USB میں کاپی کرکے اوریجنل فائل ڈیلیٹ کردی تھی۔
ہم سب کامیاب امیدواروں کو ایک طرف بٹھا دیا گیا تاکہ دوسرے امیدواروں کیلئے اگلی شفٹ شروع کی جا سکے۔ سینکڑوں میں سے محض 10 سے 12 امیدوار کامیاب ہوئے اور بدقسمتی سے میرا کزن جو میرے ساتھ آیا تھا، کامیاب نہ ہو سکا۔ مگر وقت نے آگے جا کر یہ ثابت کیا کہ شاید اصل خوش نصیب وہی تھا، کیونکہ جو جنگ تقدیر سے وہ لڑنے سے قاصر رہا، اس جنگ میں "میں" اکیلا تھا اور آج بھی، میرے دل میں سب سے زیادہ خوف صرف "تقدیر" کا ہے!
میرے ساتھ بیٹھے تمام کامیاب امیدواروں کے دستخط ہو چکے تھے، مگر میرا نتیجہ ابھی تک پرنٹ نہیں ہوا تھا۔ گویا میرا نتیجہ "تقدیر" نے چُرا لیا تھا۔ میں نے نگران افسر کی توجہ مبذول کروائی، مگر اس نے رعونت سے میری طرف آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا:
"اس شفٹ کے سب دستخط ہو چکے ہیں، تم جھوٹ بول رہے ہو! "
یہ الفاظ سن کر ایسا لگا جیسے زمین میرے پیروں تلے سے نکل گئی ہو۔ وہ خواب، وہ دعائیں، وہ امیدیں سب آنکھوں کے سامنے بکھر گئیں۔
جس نگران نے چند لمحے پہلے مجھے داد دی تھی، وہ میرا چہرہ پہچاننے کیلئے تیار نہیں، جیسے میرا چہرہ اس کی یادداشت سے مٹ چکا ہو۔ دراصل میرا فائل USB میں کاپی ہی نہیں ہوا تھا اور اسی وجہ سے نہ تو پرنٹ نکلا اور نہ ہی میں دستخط کر سکا۔
میں بے بسی کی تصویر لیے ایک افسر سے دوسرے کے پاس جا رہا تھا، ہر ایک سے یہی فریاد کر رہا تھا کہ اگر میرا نتیجہ کھو گیا ہے تو براہِ کرم مجھے دوبارہ ٹیسٹ میں بیٹھنے دیا جائے، مگر کوئی آمادہ نہیں ہوا۔
میری آواز میں تھکن، مایوسی، غصہ اور شاید کچھ بدتمیزی بھی گھل مل گئی تھی، جو انتظامیہ کی نااہلی پر میری حالت زار کا عکس تھی۔ میں لاہور سے آیا تھا، کامیاب ہو کر بھی ناکام بن کر واپس جانا تھا اور دل و دماغ میں یہ چبھتا سوال گھوم رہا تھا کہ گھر والوں کو کیا جواب دوں؟ کہ میں پاس تھا، مگر پھر بھی فیل قرار پایا؟ یعنی یہ کیسی مزاحیہ بات تھی کہ میں پاس ہوا مگر فیل ٹھہرا!
وہ چند لمحے میری زندگی کے سب سے تلخ سوال بن گئے، جن کا جواب آج تک نہ مل سکا۔
کچھ بحث کے بعد، بالاخر ایک افسر نے نرمی سے کہا: ٹھیک ہے، اگر تم اپنی وہ مخصوص نشست دکھا دو جہاں تم نے ٹیسٹ دیا تھا تو ہم چیک کرتے ہیں۔
یہ سن کر میرا ہوش اڑ گیا۔ ہال میں سو کرسیوں اور میزوں پر یکساں سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ ہر کمپیوٹر بےحد مماثلت کا مظہر، ہر قطار ایک جیسی، حتیٰ کہ ہر ماؤس اور کی بورڈ بھی ایک ہی کمپنی کے لگتے تھے۔
کیا میں، اتنے شدید اعصابی امتحان اور گم شدہ نتیجے کے بوجھ تلے، اپنی نشست کی پہچان کر سکوں گا؟
دماغ جیسے سن ہو چکا تھا مگر دل نے ہار نہیں مانی۔ اچانک ایک فلیش بیک آیا۔
ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے میں نے اپنی میز پر ایک پن ڈرائیو کا خالی ڈبہ دیکھا تھا۔ بس وہی ایک اشارہ تھا جو میری امید کی کرن بنا اور میں نے فوراً ہر میز پر نظریں دوڑائیں اور آخرکار وہی خالی ڈبہ مل گیا۔
اس کمپیوٹر کا ری سائیکل بن کھولا گیا اور خوش قسمتی سے وہاں میرے نام اور رول نمبر کی فائل موجود تھی۔
میری سانسیں بحال ہوگئیں اور افسر نے نرمی سے کہا، پریشان نہ ہو، تمہارا ڈیٹا مل گیا ہے۔
خیر، پرنٹ نکلا، دستخط اور انگوٹھے کا نشان لیا گیا اور میں گہری سانس لیتے ہوئے امتحانی ہال سے باہر نکلا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی طویل و کٹھن معرکے سے فتح مند ہو کر نکل رہا ہوں۔ دل میں تھکن کا بوجھ، ماتھے پر پسینہ اور ہونٹوں پر شدید پیاس کی لہر کے باوجود میرے دل میں ایک خاموش مگر پُراثر اطمینان تھا کہ میں ہارا نہیں، بلکہ جیتا ہوں!
یہ تو محض ایک تمہید تھی، آگے تقدیر نے بھیس بدل بدل کر ایسی رکاوٹیں کھڑی کیں کہ ہر قدم ایک امتحان بن گیا اور ہر امتحان میں ایک نئی کہانی چھپی تھی۔
(سلسلہ جاری ہے)

