Thursday, 11 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Leader Ke Gird Khushamadion Ka Hisar

Leader Ke Gird Khushamadion Ka Hisar

لیڈر کے گرد خوشامدیوں کا حصار

سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ

ہر اقتدار کے ایوان کے گرد ایک ایسا نادیدہ حصار ہوتا ہے جو سچ کی راہوں کو تنگ کر دیتا ہے، اسے "خوشامد کا حصار" کہتے ہیں۔ جہاں سچ بولنا جرم اور جھوٹ پر داد و تحسین ملتی ہے۔ یہی وہ دائرہ ہے جو ایک لیڈر کو حقیقت کی زمین سے اٹھا کر خود ساختہ بلندیوں پر لے جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے ہی عکس کو دیکھنا چھوڑ دیتا ہے اور آئینے میں صرف واہ واہ سننے والے چہرے باقی رہ جاتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تنقید کو اکثر مخالفت یا گستاخی سمجھ لیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تنقید ایک باشعور اور صحت مند معاشرے کی علامت ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو خامیوں کی نشاندہی کرکے اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے اور غلطیوں کو سدھارنے کی راہ دکھاتا ہے۔ میں عمران خان صاحب کا ناقد اس لیے بھی ہوں کہ ایک لیڈر کو سب سے زیادہ ضرورت اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو سچ بولنے کی جرآت رکھتے ہوں۔

ہمارے معاشرے میں دو قسم کے ناقد ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہر وقت "تنقید برائے تنقید" کرتے ہیں، جن کے دل میں رتی برابر ہمدردی نہیں ہوتی، جیسے کچھ رشتہ دار جو صرف خامیوں پر نظر رکھتے ہیں اور دوسرے وہ ناقدین جو تنقید میں بھی خیرخواہی کا جذبہ رکھتے ہیں، جیسے والدین، جو سخت بات بھی اصلاح کی نیت سے کرتے ہیں۔ میں خود کو دوسرے درجے کا ناقد سمجھتا ہوں جو تنقید تو کرتا ہے لیکن اس نیت سے کہ لیڈر بہتر ہو، فیصلے بہتر ہوں اور ملک کا مستقبل بہتر ہو یعنی "تنقید برائے اصلاح"۔ مجھے "تنقید برائے اصلاح" کے قائل لوگ پسند ہیں کیونکہ سچ بولنے والا دوست، خاموش رہنے والے خوشامدی سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔

خان صاحب، بلاشبہ ایک بے پناہ مقبول لیڈر ہیں۔ خان صاحب کے چاہنے والے لاکھوں میں نہیں، کروڑوں میں ہیں، مگر مقبولیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ پر تنقید نہ ہو۔ درحقیقت، "تنقید برائے اصلاح" ہر اس شخصیت کے لیے لازم ہے جو قیادت کا دعویٰ رکھتی ہو۔ لیکن افسوس کہ ہمارے سیاسی منظرنامے میں اس تنقید کی گنجائش بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ چونکہ میرا موضوع "خوشامدیوں کے حصار" کے متعلق ہے تو آئیے زرا اس پر لب کشائی کرتے ہیں۔

خان صاحب یا کسی بھی لیڈر کے گرد موجود خوشامدیوں کا وہ حصار جو ہر حال میں لیڈر کو یہی باور کرواتا ہے کہ حضور سب کچھ ٹھیک ہے، سب بہتر جا رہا ہے۔ (یہاں میں ایک اہم بات قارئین کی خدمت میں پیش کرتا چلوں کہ خان صاحب کا بار بار ذکر اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ اُنہیں سب سے زیادہ نقصان اُنہی لوگوں نے پہنچایا جو اُن کے قریب تھے، جو بظاہر مخلص لگتے تھے) خیر رفتہ رفتہ ایک لیڈر بھی اِس خوش فہمی کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اِس غلط بیانی کے دو بڑے کردار ہوتے ہیں۔

نمبر 1 - سیاسی دوست

نمبر 2 - صحافی دوست۔

سیاسی دوستوں کا حال یہ ہے کہ وہ لیڈر کے فیصلوں پر لبیک کہنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، چاہے وہ فیصلے کتنے ہی غیر مدبرانہ کیوں نہ ہوں مگر اِس سے بھی زیادہ تکلیف دہ کردار اُن صحافیوں کا ہے جو خود کو اس لیڈر کا خیر خواہ ظاہر کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہی اس کی سیاسی جدوجہد کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ کل ایک معروف صحافی کا پچھلے دسمبر کا وی لاگ نظر سے گزرا، جس میں وہ بڑے پُراعتماد انداز میں فرما رہے تھے: "عمران خان 15 دسمبر سے پہلے پہلے رہا ہو جائیں گے، لکھ کر رکھ لیں!"

مگر آج۔۔ اُس بات کو ایک سال گزر چکا ہے اور خان صاحب اب بھی قیدِ تنہائی کی تاریکیوں میں محصور ہیں۔۔ صحافی حضرات کا معاملہ صرف اسی ایک واقعے تک محدود نہیں، یہ تو محض ایک مثال ہے، صرف سمجھانے کے لیے۔ ورنہ ایسے سینکڑوں مناظر روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں، جہاں سچ کو مصلحتوں کی چادر اوڑھا دیا جاتا ہے اور کارکنان اُس کبوتر کی مانند آنکھیں موند لیتے ہیں، جیسے آنکھ بند کر لینے سے خطرہ ٹل جائے گا۔

میرا سوال ان صحافیوں سے ہے، جو اپنے قلم اور زبان کے ذریعے لیڈر کے لیے روشنی کی امید بننے کی بجائے، اندھی آس دلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ کیا وہ صحافی سچ میں خیرخواہ ہیں؟ کیا وہ اندر سے واقف ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے؟

پھر کیوں وہ لیڈر کو ایک ایسے چشمے سے منظر دکھاتے ہیں جس میں ہر چیز صاف، شفاف اور سازگار نظر آتی ہے۔

میرا ماننا ہے کہ خان صاحب کو جتنا نقصان اُن رفقا نے دیا جو سیاسی شعور سے عاری تھے، اتنا ہی نقصان اُن صحافیوں نے بھی پہنچایا، جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرا کے صرف "سب اچھا ہے" کی گردان کرتے رہے۔۔

Check Also

Moscow Se Makka (1)

By Mojahid Mirza