Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Khilafat Ki Mehek, Iran Ki Fiza Mein

Khilafat Ki Mehek, Iran Ki Fiza Mein

خلافت کی مہک، ایران کی فضا میں

بعض اوقات مصروفیات قلم کو زنجیروں میں جکڑ لیتی ہیں، کوئٹہ کی گلیوں میں گھومتا میں، ایک امتحان سے نکل کر دوسرے کی تیاری میں مگن، وقت کو مٹھی میں قید کرنے کی کوشش میں مصروف رہا۔

تحریر کا عمل تھم سا گیا تھا، لیکن آج ایک خبر دل کے دریچوں پر دستک دے گئی۔

دل نے کہا، یہ وہ لمحہ ہے جب خاموشی جرم بن جاتی ہے۔ کیونکہ موضوع صرف سیاسی نہیں، روحانی بھی ہے، صرف علمی نہیں، قلبی بھی ہے۔

یہ اُن اقدار کی بات ہے جنہیں ہم نے صرف تقریروں میں زندہ رکھا، عمل میں دفن کر دیا۔

مجھے ہمیشہ ان چہروں سے گریز رہا ہے جو خلافت کے نام پر "گدی نشینی" کے خواب بیچتے ہیں۔

جو منبر پر خلفائے راشدینؓ کا نام تو لیتے ہیں۔ مگر عمل میں اپنے بیٹوں، بھتیجوں اور نواسوں کو مسند پر بٹھاتے ہیں اور یوں خلافت، وراثت کے قدموں میں دم توڑ دیتی ہے۔

آج ایک خبر نے دل میں خوشیوں کی لہر دوڑا دی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی جانشینی کے لیے تین ناموں کا انتخاب کیا اور حیرت کی بات یہ کہ اُن کے بیٹے کا نام اس فہرست میں شامل نہیں۔

یہ محض ایک سیاسی حکمت عملی نہیں، بلکہ وہ اصولی فکر ہے جو ہمیں خلافتِ راشدہ کے روشن اور سنہرے صفحات کی یاد دلاتی ہے۔ ذہن فوراً حضرت عمر فاروقؓ کی طرف گیا، جنہوں نے خلافت کے لیے چھ افراد کی شوریٰ بنائی، مگر اپنے بیٹے عبداللہؓ بن عمر کو صرف مشورے کی حد تک رکھا۔

پھر تاریخ نے وہ لمحہ بھی دیکھا جب حضرت علیؓ سے لوگوں نے حضرت حسنؓ کی خلافت کے متعلق سوال کیا تو فرمایا: "نہ میں تمہیں اس کی بیعت کا حکم دیتا ہوں اور نہ منع کرتا ہوں، تم خود فیصلہ کرو کہ کون تمہارے لیے بہتر ہے"۔

یہ ہے قیادت کا شعور، یہ ہے خلافت کی اصل روح، جہاں نسب نہیں، اہلیت دیکھی جاتی ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کا یہ فیصلہ صرف تدبیر نہیں، یہ سوچ ہے، جو ہمیں خلافتِ راشدہ کے اصولوں کی یاد دلاتی ہے اور پھر نگاہ پلٹی آج کے مذہبی و سیاسی منظرنامے کی طرف، جہاں وراثت گدی کا نام بن چکی ہے۔

باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا، گویا دین و سیاست کی گدی کوئی خاندانی جاگیر ہو۔

سوال یہ نہیں کہ بیٹا اہل ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ادارے، مسلک اور جماعتیں افراد کی ملکیت بن جائیں؟ اگر قیادت صرف نسب پر چلے تو اہلیت، تقویٰ اور دیانت کہاں جائیں گے؟

المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں دین ہو یا سیاست، قیادت اب خاندانی جاگیر بن چکی ہے۔ جماعتیں ہوں یا خانقاہیں، مدرسے ہوں یا مسالک، ہر جگہ گدی کا وارث بیٹا ہی کیوں ہوتا ہے؟

کیا اہلیت، تقویٰ، بصیرت اور صلاحیت۔

all rights reserved ہو گئے ہیں صرف اولاد کے لیے؟

اہلِ تقلید سے چند سوالات، خواہ سیاسی ہوں یا مذہبی: جب خلفائے راشدینؓ اپنے بیٹوں کو جانشینی کے قابل نہیں سمجھتے، تو ہم نے اپنی نسلوں کو معصوم، بےخطا اور ناگزیر کب سے مان لیا؟

اگر گدی نشینی ہی سب سے بہتر طریقہ ہے، تو چاروں خلفاء نے اسے کیوں مسترد کیا؟

ملوکیت اور خلافت کے مابین وہ بنیادی فرق کیا ہے، جب گدی نشینی کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے؟

کیا صحابہ کرام سے بڑھ کر کوئی نمونہ ہمارے لیے ممکن ہے؟ اور کیا آج کے سیاسی و مذہبی جماعتوں میں قابلیت صرف قائدین کی اولاد تک ہی محدود رہ گئی ہے؟ کیا وراثت نے فہم و بصیرت کی جگہ لے لی ہے؟

سوچیے گا ضرور کیونکہ یہ سوالات ہماری فہم و بصیرت کی راہ روشن کرتے ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam