Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Firqe, Fikren Aur Fasle (1)

Firqe, Fikren Aur Fasle (1)

فرقے، فکریں اور فاصلے (1)

میرے گاؤں میں اگر دین کا کوئی تعارف تھا تو وہ دو واضح خیموں میں منقسم تھا: ایک طرف اہلِ سنت بریلوی، دوسری جانب دیوبندی مکتبِ فکر۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ کوئی دینی وجود نہیں، بلکہ دو نظریاتی مورچے ہیں، جہاں ہر روز ایک خاموش مگر شدت سے لڑی جانے والی جنگ برپا ہے، عقائد کی جنگ۔

دلیل کی نہیں، وراثت کی نہیں۔ بلکہ انا کی جنگ۔۔

اتنا گہرا اختلاف کہ جیسے دونوں ایک ہی قبلہ رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے وجود سے خائف ہوں۔

مسجد گویا میدانِ کارزار بن چکی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نماز کے بعد کے بیانات تک اوقات میں تقسیم ہو چکے تھے۔ ظہر کے بعد آپ کی باری، عصر کے بعد ہماری۔ پھر مغرب آپ کی اور عشاء ہماری۔ دین جیسے فریقوں میں بٹ چکا ہو۔

یہ دو خیموں کے درمیان خندق کی رکھوالی تھی اور خندقیں صرف میدانِ جنگ میں کھودی جاتی ہیں۔

اختلافات کی وجہ سے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا تھا کہ "ہم ہی حق پر ہیں"۔ یہاں تک کہ اگر کوئی دیوبندی شخص پاجامہ ٹخنوں سے اوپر رکھتا نظر آتا، تو دل میں ناپسندیدگی کی لہر دوڑ جاتی۔

سوچ کا یہ زاویہ اتنا جڑ پکڑ چکا تھا کہ معاملہ صرف اختلاف تک محدود نہ رہا، بلکہ دوسرے کی اصلاح کی بجائے اُس کے خلاف صف بندی کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔

رفتہ رفتہ یہ اختلاف بڑھتا گیا۔ دیوبندی مکتبِ فکر نوجوانوں کو رائیونڈ اور تبلیغی جماعت کی طرف مائل کرتے اور بریلوی مکتب فکرکے لوگ نوجوانوں کو دعوتِ اسلامی کی طرف لے جاتے۔ گویا ایک مسلسل کوشش تھی کہ "ہمارا" کوئی نوجوان "ان کا" نہ بن جائے۔

میرا تعلق بریلوی مکتب سے تھا اور بچپن سے یہی سیکھا کہ ہم ہی "حق" پر ہیں۔ ہم سچ بولتے ہیں، باقی سب بحث کرتے ہیں۔ دوسرے کی نماز، لباس، شلوار، ٹوپی، یہاں تک کہ آدابِ سلام بھی ہمارے لیے مشکوک ٹھہرائے جاتے۔

اس وقت نہ ہمیں سنت کا فہم تھا، نہ فہم کا ظرف۔ اگر کوئی دیوبندی شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھتا تو میں احتجاجاً اپنی اور نیچے کر لیتا۔ گویا علم نہیں، صرف ردِ عمل ہی ہمارا اثاثہ تھا۔

ہمارے گاؤں میں دونوں مسالک کی جماعتیں تبلیغ کے لیے اکثر آتی رہتی تھیں، مگر تبلیغی حلقوں کا غلبہ خاص طور پر نمایاں تھا۔

جب ہم نوجوان کرکٹ کھیلتے یا کہیں جمع ہوتے، تو جیسے ہی یہ "ٹولے" نمودار ہوتے، ہر کوئی اچانک کہیں غائب ہو جاتا۔ کیوں؟

کیونکہ ان کی رٹی ہوئی تقریر میں نہ جان تھی، نہ الفاظ میں کوئی تازگی۔ تقریر ایک جیسی، بار بار دہرائی گئی ایک ہی مشق، جس میں کوئی رنگ یا ذائقہ نہیں۔ نتیجتاً نوجوانوں نے سننے کے بجائے موقعے سے بھاگنے کو ترجیح دی۔

میری رائے میں، ہمارے مولوی حضرات کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو پائے۔ آج کے نوجوان کی زبان، اس کے خیال اور دل تک بات پہنچانے کا فن ان سے بہت دور ہے۔ اگر باتوں میں روح نہ ہو، تو ہزاروں الفاظ بھی بے معنی لگتے ہیں۔

یہ سب لکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ آپ وہ داخلی فضا محسوس کر سکیں جس میں میری آنکھ کھلی، سوچ نے سانس لینا شروع کی اور سوال جنم لینے لگے۔

یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب میں نے جیکب آباد کے تعلیم سے بھرپور دنوں کو الوداع کہہ کر ایف ایس سی کی غرض سے کوئٹہ کا رُخ کیا، ایک نیا شہر، نئے چہرے اور ایک نیا مرحلہ۔۔

کوئٹہ آ کر زندگی میں جیسے ایک نیا در کھلا، مساجد بدلیں، خطبات بدلے اور خیالات کا دائرہ بھی۔ مختلف علماء کو سننے کا اتفاق ہوا، کچھ محفلوں میں خاموش بیٹھا، کچھ میں دل بولنے لگا۔ یہ سفر صرف مسجدوں تک محدود نہ رہا، بلکہ سوشل میڈیا کی روشن مگر چبھتی دنیا میں قدم رکھا تو ایک نئی ہلچل محسوس ہوئی۔

یہاں ہر کوئی کسی آسمانی کتاب کا مدعی لگا۔ ہر اسکالر کا لہجہ ایسا جیسے آخری سچ اُس کے پاس ہو۔ کچھ عرصے تو سخت تذبذب کا شکار رہا کہ آخر سچ کون بول رہا ہے؟ کیونکہ اعتماد تو سب کے الفاظ میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔

اسی دوران پہلی بار صحیح بخاری و مسلم کا نام سنا۔ کچھ تحقیق کی، وہ بھی چھپ کر۔ والد صاحب میرے بے حد معاون رہے ہیں، مگر اُن کی ایک خواہش تھی کہ میں ان فقہی اختلافات یا تحریری معرکوں سے دور رہوں۔ اُن کی نظر میں میرا اصل مقصد کچھ اور ہونا چاہیے۔ وہ لکھائی کو ایک وقتی جذباتی اخراج سمجھتے ہیں۔

مگر میرا مزاج کچھ اور تھا۔ لکھے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ لہٰذا، میں نے لکھنا جاری رکھا، مگر گمنامی میں۔ آج بھی میرے کالمز شائع ہونے کے متعلق والد صاحب لاعلم ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک وقت خاصا متحرک رہا، لیکن والد صاحب کی خواہش کے احترام میں تمام اکاؤنٹس حذف کر دیے۔ تب سے میں بغیر چہرے، بغیر نام کے زندہ ہوں، لیکن خیالات آج بھی دھڑکتے ہیں۔

آج بھی میری تصویر کسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر نہیں، مگر میری سوچ، میرے کالمز، وہ میری شناخت بن چکے ہیں۔ والد صاحب کا احترام اپنی جگہ، مگر کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو لکھی نہ جائیں، تو روح گھٹنے لگتی ہے۔

یہ کوئی بغاوت نہیں، بس ایک خاموش جستجو ہے، اپنے اندر کے سوالات کے جوابات کی۔ یہ اپنے اندر کی وہ صدا ہے جو کہتی ہے: "سوچ کو قید نہ کرو، سوال کرو، چاہے تنہا کیوں نہ ہو جاؤ"۔

اس تمام کشمکش میں، میں نے سوالات کی جسارت کی اور اس ہجوم میں صرف میں تھا، جس نے اپنے عقیدے کو پہلی بار خود سے کھرچ کر دیکھا۔ شاید یہی لمحہ ہوتا ہے کسی اصل سفر کا آغاز۔

جاری۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam