Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Even Fingers Are Not Same

Even Fingers Are Not Same

ایون فنگرز آر ناٹ سیم

یہ دنیا رنگ برنگی ہے۔ یہاں چہرے ہی نہیں، دل، ذہن، سوچ، جذبے اور نیتیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ ہم اکثر ایک فرد کے جرم پر پورے طبقے، قوم، مسلک یا پیشے کو مجرم ٹھہرا دیتے ہیں جیسے سب ایک جیسے ہوں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ہر مولوی انتہا پسند نہیں ہوتا، ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا، ہر پولیس والا ظالم نہیں ہوتا، ہر سیاست دان کرپٹ نہیں ہوتا، ہر نوجوان گمراہ نہیں ہوتا، ہر روشن خیال بےدین نہیں ہوتا اور ہر بلوچ ظالم نہیں ہوتا۔۔

انسانوں کو جتنی آسانی سے ہم خانوں میں بانٹتے ہیں، اتنی ہی مشکل سے ان کے اندر جھانکتے ہیں۔ ہمیں سکھایا ہی نہیں گیا کہ افراد کو ان کے عمل، کردار اور نیت سے جانچنا چاہیے، نہ کہ ان کے لباس، زبان یا تعلق سے۔

دہشت گرد کا نہ کوئی قبیلہ ہوتا ہے، نہ مذہب، نہ زبان، اس کا صرف ایک وصف ہوتا ہے، ظلم۔ جرم کا چہرہ صرف بےرحمی ہے، نہ وہ بلوچ ہوتا ہے، نہ پنجابی، نہ سندھی، نہ پختون، وہ صرف قاتل ہوتا ہے۔ یہ تحریر ایک یاددہانی ہے کہ تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔

حال ہی میں بلوچستان میں ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اہلِ بلوچستان، بلکہ ہر باشعور دل کو رنجیدہ کر دیا، ایک جوڑے کو، مبینہ طور پر پسند کی شادی کے باعث، بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ وہ ظلم ہے جسے کوئی دردِ دل رکھنے والا انسان تو درکنار، شاید کوئی جانور بھی گوارا نہ کرے۔

یہ سانحہ صرف بلوچستان سے باہر بسنے والوں کو نہیں، بلکہ ہم جیسے یہاں کے باسیوں کو بھی دکھ، اذیت اور شرمندگی میں ڈوبا چھوڑ گیا ہے۔ ایک طرف ہم دنیا کو اپنی ثقافت، مہمان نوازی اور غیرت کے قصے سناتے ہیں مگر دوسری طرف چند درندہ صفت انسان ہمیں آئے روز ندامت کا سامنا کراتے ہیں۔

بطور بلوچ، یہ واقعہ ہم سب کے ضمیر پر ایک تلخ سوال ہے: کیا ہمارا کلچر اتنا کمزور ہے کہ وہ محبت کو برداشت نہیں کر سکتا؟ کیا غیرت کا مطلب فقط جان لینا رہ گیا ہے؟

یہ صرف دو انسانوں کا قتل نہیں، یہ محبت کا قتل ہے، انسانیت کا قتل ہے اور اُس امید کا قتل ہے جو ایک بہتر، زیادہ مہذب بلوچستان کی خواب دیکھتی ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جرگہ سسٹم، نوابی روایت، شخصیت پرستی اور سردارانہ ذہنیت نے بلوچستان کی شناخت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ ہم میں سے کئی، بشمول میری ذات، ان فرسودہ رویّوں کو نہ مانتے ہیں، نہ قبول کرتے ہیں۔

ہم اُس بلوچ روایت کے وارث ہیں جہاں عورت کو عزت و حرمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو دوپٹے کی ایک جھلک بھی دستبرداری کا اعلان ہوتی ہے، چاہے سچائی ہمارے ہی حق میں کیوں نہ ہو۔ یہ ہے ہماری اصل پہچان مگر افسوس، چند درندہ صفت چہروں نے ہمیں ایسی شرمندگی میں مبتلا کر دیا ہے کہ دنیا ہمیں بھی اُن میں شامل سمجھنے لگی ہے۔

یاد رکھیے، ہم ان درندوں میں سے نہیں!

عورت محض ایک رشتہ نہیں، ایک مکمل کائنات ہے، وہ ماں ہے تو رحمت، بہن ہے تو شفقت، بیوی ہے تو رفاقت اور بیٹی ہے تو دل کا وہ گوشہ جہاں ہر دعا جنم لیتی ہے۔

وہ فقط جسم نہیں، جذبہ ہے۔

فقط نام نہیں، مقام ہے۔

عورت عزت ہے، غیرت نہیں۔

عورت زندگی ہے، جائیداد نہیں۔

لیکن افسوس کا مقام صرف یہ واقعہ نہیں بلکہ وہ رویّہ بھی ہے جو ایسے واقعات کے بعد اپنایا جاتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس واقعے کو وجہ بناکر نفرت کی ایک نئی فصل اگائی جا رہی ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب ظلم کرنے والے چند افراد کے سبب پوری قوم، پورا صوبہ، پورا علاقہ موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ تصور ابھرتا ہے کہ شاید بلوچستان میں انسان بستے ہی نہیں، فقط سنگدل، شدت پسند اور سفاک چہرے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟

کیا ہم بھول گئے کہ "کالی بھیڑیں" ہر معاشرے میں ہوتی ہیں؟ جیسے ہر محکمے میں، ہر قوم میں، ہر نسل میں کچھ چہرے اپنے ہی لوگوں کو شرمندہ کر جاتے ہیں، ویسے ہی بلوچستان بھی کوئی استثنا نہیں۔ لیکن کیا چند چہروں کو بنیاد بنا کر ہم پورے صوبے کے باسیوں کو قصوروار ٹھراسکتے ہیں؟ کیا اگر کسی دوسرے صوبے میں ظلم ہو تو ہم پوری قوم کو ظالم کہتے ہیں؟

میری آنکھوں نے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں بھی ایسے کئی المناک مناظر دیکھے۔ خصوصاً پنجاب کے کچھ واقعات اور ویڈیوز آج بھی ذہن میں تازہ ہیں، جہاں ایک بہن کو برسوں جائیداد کے تنازع پر زنجیروں میں جکڑا گیا، ماں باپ کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔

تو میرا ایک معصومانہ سوال ہے: کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام پنجابی ایسے ہی ہیں؟ یقیناً نہیں!

افسوس اس بات کا ہے کہ جب بلوچستان سے کوئی واقعہ منظرِ عام پر آتا ہے تو ہمارے مہربان دوست، خاص طور پر دیگر صوبوں سے، فوراً ایک خیالی تصویر بنا لیتے ہیں کہ شاید بلوچستان درندوں کی بستی ہے، جہاں انسانیت کا نام و نشان نہیں۔

مگر سچ یہ ہے کہ نہ ہر بلوچ قاتل ہے۔ نہ ہر قوم ظالم، نہ ہر فرد مظلوم۔

اصل مجرم صرف وہ سوچ ہے جو انسانیت، رحم اور احترام سے خالی ہے چاہے اسکا تعلق کسی بھی صوبے، کسی بھی قوم یا کسی بھی زبان سے ہو۔ یقیناً، اس میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں کہ کسی بےگناہ انسان کا ناحق قتل سراسر ظلم ہے، زیادتی ہے اور رب کے فرمان کے مطابق "جس نے ایک جان لی، گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا"۔

مگر خدارا، ان چند "کالی بھیڑوں" کو بنیاد بناکر اُس عام بلوچ کو نظرانداز نہ کیجیے جو آج بھی محبت، انسانیت اور بھائی چارے کا علمبردار ہے۔ جو نفرت کے اندھیروں میں بھی چراغ بن کر جینے کی کوشش کر رہا ہے، جو لاشوں کا نہیں، امن کا متلاشی ہے۔

پوری قوم کو ایک جرم کا مجرم ٹھہرانا۔ انصاف نہیں، ظلم ہے۔ ہمیں نفرت کے بجائے فہم۔ تعصب کے بجائے توازن اور الزام کے بجائے انصاف کا دامن تھامنا ہوگا۔ کیونکہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔

ظلم کرنے والے کا نہ کوئی رنگ ہوتا ہے، نہ زبان، نہ نسل، اس کا صرف ایک ہی چہرہ ہوتا ہے: بےرحم اور سنگدل۔

لہٰذا لازم ہے کہ ہم فرد کو اس کے جرم کا ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ پوری قوم کو۔ جب کسی ظلم کو ایک خاص صوبے، زبان یا قوم سے جوڑ کر پورے معاشرے پر لیبل لگا دیا جاتا ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے جرم کسی انسان نے نہیں، بلکہ کسی قوم نے کیا ہو۔

ہمیں بحیثیتِ انسان، بحیثیتِ پاکستانی، اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ظلم کی مذمت ضرور کیجیے مگر انصاف کے ساتھ۔

قوموں کو نہیں، افراد کو جواب دہ ٹھرائیے۔۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan