Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Constitution Ya Nursery Book?

Constitution Ya Nursery Book?

کانسٹیٹیوشن یا نرسری بُک؟

کافی عرصے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اس تمام مدت میں خاموش رہنے کی ایک ہی بڑی وجہ رہی اور وہ ہے روزگار کی فِکر۔ پہلے امتحانات کی تیاری کا دباؤ اور اب سرکاری ملازمت کی ذمہ داریاں، انسان کو ایسے گھیر لیتی ہیں کہ شوق دم توڑنے لگتے ہیں۔ کبھی میں سوچا کرتا تھا کہ جب نوکری ملے گی، تو روز ایک تحریر ضرور قلم بند کیا کروں گا۔ مگر سرکاری نظام کی پیدا کردہ سستی اور روایتی بے عملی نے کچھ ایسا جکڑا کہ تحریر سے رشتہ تقریباً منقطع ہوگیا۔

میرے وہ دوست جو میری تحریر "محنت یا تقدیر، جیتا کون؟" پڑھ چکے ہیں، یقیناً اُن کے دل میں میرے لیے ایک نرم گوشہ پیدا ہوا ہوگا۔ اُنہیں یہ اطلاع دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بالآخر میں ایک وفاقی ادارے میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ اُن کی دعائیں اور میری کوششیں بلآخر رنگ لے آئیں۔

اس تمام وقفے کے دوران سیاست، مذہب اور سماجی حالات پر بہت کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا۔ اب دوبارہ کوشش ہے کہ قلم کو متحرک رکھا جائے کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ضبط کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے، آئینِ پاکستان ایک عرصے سے ترمیمات کی زد میں ہے۔ ہر حکومت، اپنی مرضی اور مفاد کے تحت اس عظیم دستاویز میں چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آتی ہے۔ بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئین ایک نرسری کی کتاب بن چکی ہے، جِسے جب، جو چاہے، اپنی سہولت کے مطابق رنگ دے اور جب ہم مذہبی سیاست کی جانب دیکھتے ہیں تو حالیہ دنوں ایک مذہبی جماعت کے ٹکٹ ہولڈرز کی "منصوبہ بند" پریس کانفرنس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ترتیب، لب و لہجہ اور انداز کچھ ایسا تھا جیسے سب کچھ پہلے سے لکھا جا چکا ہو اور صرف ایک اسکرپٹ پڑھا جا رہا ہو۔ خیر دوبارہ موضوع کی طرف آتے ہیں۔

آج کے سیاسی و معاشرتی منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے "آئینِ پاکستان" ایک نرسری کی کتاب بن چکا ہے جِسے جب چاہا پھاڑ لیا گیا، جب چاہا چِپکا دیا گیا۔ کوئی شِق اگر مفاد میں آڑے آئے تو ایک سادہ سی ترمیم کے ذریعے اسے حسبِ ضرورت ڈھال لیا جاتا ہے جیسے کسی بچے کے ہاتھ میں رنگ بھری پینسل ہو اور وہ کتاب کے ہر صفحے پر اپنی مرضی سے رنگ بکھیر رہا ہو۔ چونکہ تمہید کچھ طویل ہوگئی اس لیے تحریر کو اختصار میں سمیٹنا پڑا۔ مگر جاتے جاتے چند سوالات آپ کی سماعتوں کے حوالے کر رہا ہوں۔ شاید انہی کی بازگشت میں ہمارا اجتماعی ضمیر ایک لمحے کو ہی سہی، جاگ جائے۔ یہ سوالات فقط میرے کاغذ پر اترے الفاظ نہیں، یہ ہر اُس آنکھ کی نمی ہیں جو اس وطن کا درد دیکھ کر بھی چُپ ہے، ہر اُس دل کی دھڑکن ہے جو آئین کو نرسری کی کتاب بنتا دیکھ کر بھی بے بس ہے۔

نمبر 1- اگر آئین واقعی صرف ایک نرسری کی کتاب ہے، تو پھر اس قوم کے شعور کا نصاب کون مرتب کرے گا؟

نمبر 2- اگر اقتدار ہی سب کچھ ہے، تو وفاداری، قربانی اور ادارہ جاتی استحکام کہاں جائیں گے؟

نمبر 3- کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم آئین کو ایک مقدس امانت سمجھ کر اپنائیں، نہ کہ ذاتی مفادات کا کھلونا بنائیں؟ یا ہم ہمیشہ اپنی ہی ناعاقبت اندیشی سے اپنے قومی وجود کو کمزور کرتے رہیں گے؟

نمبر 4- اور کیا ہم، بطور عوام، صرف تالیاں بجانے اور نعرے لگانے تک محدود رہیں گے؟ یا پھر کوئی وقت آئے گا جب آئین پاکستان کو اُس کا اصل مقام، عزت اور اختیار واپس ملے گا؟

فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ آئین کو سنبھالنا ہے یا تماشا بننے دینا ہے۔

یہ سوالات میرے نہیں، ایک سوچتے ہوئے پاکستانی کے ہیں، جن کا جواب آج نہیں تو کل تاریخ ضرور مانگے گی۔ ان شاء اللہ جلد کسی نئے زاویے، کسی نئے سوال کے ساتھ پھر حاضر ہوں گا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali