Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhad Magsi
  4. Aaj Ka Mabood Paisa

Aaj Ka Mabood Paisa

آج کا معبود پیسہ

ہمیشہ سے میرا قلم شخصیت پرستی، نظریاتی بتوں اور روایتی سوچ کے خلاف صف آرا رہا ہے مگر آج میں ایک ایسے خاموش اور مہلک بُت کے سامنے کھڑا ہوں جو شاید اِن سب سے زیادہ خطرناک ہے اور وہ ہے "دولت کا بُت"۔

ہم بطور معاشرہ کِس طرف جا رہے ہیں؟ یہ سوال اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ہے، مگر ہر بار ایک ہی جواب ملتا ہے، ہم اُس جانب بڑھ رہے ہیں جہاں اِنسانیت، اِخلاق اور کِردار کی کوئی وقعت باقی نہیں، صرف دولت ہی سب کچھ ہے۔

اسلام میں دولت کمانے کی ممانعت نہیں مگر دولت کو معبود بنا لینا ضرور فتنہ ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔

دولت کو مقصدِ حیات بنانے کا یہ جنون اب اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ ہم نے پیسے کو صرف ضرورت نہیں، بلکہ "خدا" بنا دیا ہے۔ اِسی تناطر میں ایک ذاتی مشاہدہ آپ سے بانٹنا چاہتا ہوں جو میرے دل و دماغ میں کئی سوالات چھوڑ گیا۔

ایک روز میں شہر کے پولیس اسٹیشن کے باہر کھڑا کسی کا انتظار کر رہا تھا، سورج ڈھل رہا تھا مگر میرے اندر کا ایک اور سورج غروب ہونے کو تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک اہلکار اپنے ساتھی اہلکار پر اس قدر برہم تھا کہ لفظوں کی تمام حدیں پار کر رہا تھا، گالیاں، طعنہ زنی اور ایسا غصہ گویا کوئی عظیم خیانت ہوگئی ہو۔ وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ "میری اجازت کے بغیر بوتل کیوں کھولی"؟ یعنی اتنی سی معمولی بات پر وہ اتنا بپھرا ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ بات ہاتھا پائی تک جا پہنچے گی مگر اگلے ہی لمحے گیٹ پر گاڑی کا ایک ہارن بجا، وُہی شخص جو ابھی لفظوں کے خنجر برسا رہا تھا، اچانک اپنے چہرے پر مسکراہٹوں کا نقاب پہن کر نہ صرف گیٹ کھولا بلکہ عاجزانہ طریقے سے سلام بھی دیا۔ گویا میں نے انسان کی سب سے بھیانک دورُخی دیکھ لی ہو اور اِس تبدیلی کی واحد وجہ؟

گاڑی میں بیٹھا "صاحب زر"!

"ہمیں آخر صاحبِ زر کی آمد پر ایسا کیا مل جاتا ہے جو لمحوں میں ہمارے لہجے، نظریے اور رویے بدل جاتے ہیں؟ ہم جھکتے نہیں، بلکہ بیچتے ہیں، اپنے رویے، اپنے اصول۔۔ صرف اس لیے کہ شاید دولت مند کی قُربت ہمیں بھی کچھ روشنی، کچھ فائدہ، یا کچھ مقام بخش دے۔ یہی وہ سوچ ہے جو ہمیں روز جھکنے پر مجبور کرتی ہے۔

یہ تضاد میرے دل میں کئی سوال چھوڑ گیا ہے کہ کیا پیسہ ہی ہماری انسانیت، اخلاق اور لہجے کا پیمانہ ہے؟ کیا ہم نے اپنی اخلاقیات کو محض دولت کے عوض بیچ دیا ہے؟ کیا ہماری زبان کی نرمی یا تلخی کا سبب اب صرف نوٹوں کی گنتی ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نہ خلوص بچا ہے، نہ قربانی کی قیمت اور نہ ہی عزت کا کوئی اصل معیار- بس دولت دولت اور صرف دولت اور یہ واقعہ کوئی استثنا نہیں۔ ہمارے روزمرہ مشاہدے میں بارہا آتا ہے کہ لہجے، رویے اور عزتیں صرف اِس بنیاد پر بدلتے ہیں کہ سامنے والے کے پاس کتنا دولت ہے۔ آج کے دور میں دولت نہ صرف ہماری کامیابی کو ماپنے کا معیار بن چکا ہے بلکہ ہمارے کردار اور عزت کو بھی اِسی کے گرد گھمایا جارہا ہے اور شاید ہم سب، شعوری یا لاشعوری طور پر اِسی دور کے مسافر ہیں جہاں "پیسہ نہ خُدا ہے، نہ اس سے کم"۔

ہم نے ایسے اصول وضع کرلیے ہیں کہ جو جتنا دولت مند ہے وہ اُتنا ہی کامیاب اور قابلِ عزت ہے۔۔ ہم نے پیسے کو صرف ضرورت نہیں بلکہ خدا بنا لیا ہے۔ اب رشتے، محبت اور خلوص سب کچھ دولت کے ترازو میں تولے جاتے ہیں۔ آپ کے پاس دولت ہے تو پرستش کرنے والے لوگ بہرحال آپ کی "پرستش" کریں گے چاہے آپکے اندر "اخلاقی دیوالیہ پن" ہی کیوں نہ ہو۔۔

ہم نے زندگی کا ہر گوشہ "مٹیریلزم" کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ شادی ہو یا جنازہ، محبت ہو یا تعزیت، ہر جگہ نمائش، برتری اور صرف مقابلہ۔

ہم دوسروں کی خوشی میں شریک ہونے کے بجائے اُن کی معاشی سطح ناپنے جاتے ہیں۔

رشتے کمزور ہو چکے ہیں اور روحانیت، تقریباً غائب۔

اب دل میں سوال گونجتا ہے۔

کیا واقعی پیسہ سب کچھ ہے؟

کیا ہم نے اپنے اندر کے انسان کو چند نوٹوں کے عوض گروی رکھ دیا ہے؟

کیا وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے بچوں کو یہ سکھائیں گے کہ "کردار بعد میں، بینک بیلنس پہلے؟

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں پیسے کو صرف ایک "ضرورت" سمجھیں، تو ہمیں خود پہلا قدم اٹھانا ہوگا۔

دولت کو تخت سے اُتارنا ہوگا۔

ہمیں اپنی نسلوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ انسان کی اصل قیمت اس کے "کردار" میں ہے، نہ کہ اس کے "بٹوے" میں۔

پیسہ اگر ہاتھ میں ہو تو بہترین "غلام" ہے اور اگر دماغ پر سوار ہو جائے تو بدترین "آقا" بن جاتا ہے! سوچیے گا ضرور، کہ ہم اس دولت کے بُت کو اپنی انفرادی زندگیوں میں کب توڑیں گے؟

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan