Muhabbat Ka Beej
محبت کا بیج
پریشانی سے برا حال تھا میرے سر پر پیسنے کی بوندیں تھی اور کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ بہت سے دوستوں کے نمبر دیکھے مگر ان کو کال کرنے کی ہمت نہیں کی پھر اچانک امی کا نمبر سامنے آیا اور جب میں نے اپنی پریشانی انہیں بیان کی تو انہوں نے کہا نانو پاس بیٹھی ہیں اسے بتاؤ اور جب میں نے اپنی نانو کو بتایا تو انہوں نے کہا گھر آؤ تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
یہ مسئلہ کیا تھا اس کی تفصیل بتانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ ایک سایہ دار درخت کی طرح آپ کو دھوپ سے بچاتے ہیں یہ 2017 کا سال تھا اور میں ایک مقامی سرکاری سکول میں استاد کے طور پر فرائض سر انجام دیتا تھا مگر گاؤں میں موجود میرے کچھ حاسد رشتے داروں کی بدولت اس وقت سکول سے معطل ہوچکا تھا اور تنخواہ بھی بند تھی شدید معاشی پریشانی تھی۔ اس وقت بھی یونیورسٹی گیٹ سے نکلتے وقت ایک پریشانی میرے ہاتھ میں تھی یہ ایک فیس ؤاچر تھا جسے کل تک ہر صورت ادا کرنا تھا اور ادا نہ کرنے کی صورت میں فائنل امتحان میں شرکٹ کی اجازت نہ ملتی۔
یونیورسٹی آف لاہور میں ایم سی کیمسٹری کا یہ میرا آخری سمسٹر تھا اور مجھے ڈگری مکمل کرنے کے لیے اس امتحان میں لازمی شرکت کرنا تھا۔ گھر آیا تو نانو نے فیس سے رقم سے زیادہ پیسے مجھے دیے اور کہا فیس ادا کردو۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب نانو نے مجھے پریشانی سے بچایا ہوا دسویں کلاس سے ایم فل تک میں نے کبھی سیونگ نہیں کی تھی کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ جب بھی کوئی موقع آیا گیا وہ پریشانی سے بچائیں گی اور پھر اچانک ایک دن وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی اور اس دن مجھے لگا کہ اس دن میں میں اکیلا رہ گیا ہوں۔
بہت سے رشتے ان کے ساتھ ہی دفن ہوگئے۔ مگر میں جو بتانا چاہ رہا تھا کہ محبت کا درخت جو مجھے فراہم رہا اسی درخت کا ایک بیج سے ایک اور محبت پھوٹی اور ایک دن میں نے بالکل انہی کی طرح سوچنا شروع کردیا۔ میرا ایک طالب علم جس سے مجھے اپنے بیٹوں کی طرح انسیت ہوگئی۔ بالکل اسی طرح سے مجھے اس کی فکر رہنے لگی جس طرح کی فکر نانو میرے لیے کرتی تھی۔ میں نے بھی اپنی ضروری چیزیں خریدنے کی بجائے اپنے بیٹے کے لیے سوچنا شروع کردیا اب مجھے سمجھ آنے لگی بےلوث اور بے غرض محبت کیا ہوتی ہے کیوں انسان اپنے بجائے اولاد کا سوچتا ہے۔
محبت کا دریا جو ہمیں میسر رہتا ہے وہی دریا آپ کو بھی ایک دوسرے دریا میں بدل دیتا ہے محبت کا بیج جو بھویا جاتا ہے وہ سایہ دار درختوں کے جنگل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس لیے محترم انسانوں محبت بھونے سے محبتیں ہی جنم لیتی ہیں اور نفرتوں عداوتوں کے خار دار درخت آپ کو بھی ایک ایسے ہی کانٹوں بھرے درخت میں بدل دیتے ہیں۔