Madari Badshah Aur Kathputli Judge
مداری بادشاہ اور کٹھ پتلی جج
جج تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ اور پیسنے کی بوندیں اس کی پیشانی سے پھوٹ رہی تھی۔ لرزتی آواز سے اس نے مداری بادشاہ کو کہا عالی جاہ! سزائے موت بہت بڑی سزا ہے۔ عوام مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ آپ اسے عمر قید کی سزا دے دیں۔ جج کی حالت سے پریشانی عیاں تھی۔ جج نیچے زمین پر بیٹھا تھا اور اس کے سامنے مداری بادشاہ ہاتھ میں ڈگڈکی پکڑے کرسی پر براجمان تھا۔
مداری بادشاہ نے غصے سے جج کو گھورا اور پھر اس کی خراب حالت دیکھ کر مداری کو کچھ ترس آگیا۔ ٹھیک ہے سزائے موت نہیں تم عمر قید کی سزا بھی دے سکتے ہو۔ عوام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ عوام اب خود خوفزدہ ہیں۔ مداری بادشاہ خاموش ہوا اور چند لمحے بعد اس نے ڈگڈگی بجانی شروع کی۔ جادوئی ڈگڈگی کی آواز سناٹے میں گونجنے لگی۔ جادوئی ڈگڈگی کی طاقت سے مداری بادشاہ ججوں، صحافیوں، سیاستدانوں اور عوام کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہ جج بھی بے بس اور لا چار تھا۔
جب اس نے ڈگڈگی کی آواز سنی غیر مرئی خوف سے وہ زمین سے کھڑا ہوگیا۔ اسے معلوم ہوگیا کہ اب اس کا آقا (مداری بادشاہ) حکم ہےکہ وہ جلد فیصلے سنادے۔ اور اسی مقصد کے لیے جج جیل جا پہنچا۔ جہاں اس نے عدالت لگانا تھی۔ جیل میں قید عدالت میں کٹھ پتلی جج نے فیصلہ کرنا تھا۔ یہ بہت انوکھا مقدمہ تھا۔ جج ملزم اور عدالت جیل میں قید تھے۔ فیصلہ مداری بادشاہ کا تھا۔
ملزم سابق وزیر اعظم کو لوہے کے پنجرے میں غلام عدالت لایا گیا۔ تمہارا جرم بے حد سنگین ہے۔ تم نے خفیہ خط کا راز لوگوں کو بتایا ہے۔ میں اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جج صاحب۔ ملزم جو سابق وزیر اعظم بھی تھا اس نے کچھ کہنے کے لیے اجازت مانگی۔ مگر کٹھ پتلی جج نے اسے روک دیا تمہارا جرم ثابت ہوا اس لیے تمہیں عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے کٹھ پتلی جج نے جلدی جلدی فیصلہ سنادیا۔
یہ فیصلہ سنانے والی عدالت پاکستان کی عدالت نہیں تھی یہ ایک ملک کوہ قاف کی عدالت تھی۔ نا ہی ملزم سابق وزیر عمران خان تھا بلکہ یہ کوہ قاف کا وزیر اعظم تھا۔ نا ہی یہ سائفر کا مقدمہ اور اس کو سننے والا جج ابو الحسنات ذوالقرنین تھا بلکہ یہ کوہ قاف کا ہی کوئی جج تھا۔ اور جیل میں قید عدالت بھی کوہ قاف کی تھی۔
مداری بادشاہ کون ہے اس کو سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں اور جاننے والے جانتے ہیں۔ ہاں البتہ مداری بادشاہ کا حکم اب یہی ہے کہ عمر قید کی سزا سابق وزیر اعظم کو دینا ہے۔ مداری بادشاہ کی ڈگڈگی بج رہی ہے اور اس ڈگڈگی سے جج فیصلے سنائیں گے۔ سابق وزیر اعظم کے ساتھی ڈگدکی کی آواز سن کر اس کے خلاف پریس کانفریسیں کریں گے اور عوام ڈر کے دبک جائیں گے۔ یہ ڈگدکی بجتی رہے گی۔