Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faraz Ahmad Rana
  4. Kya Aise Ustad Bhi Muammar e Qaum Hain?

Kya Aise Ustad Bhi Muammar e Qaum Hain?

کیا ایسے استاد بھی معمار قوم ہیں؟

ساری یونیورسٹی تقریبا خالی ہوچکی تھی۔ طالب علم جاچکے تھے رات کے تقریبا نو اور دس بجے کا درمیانی وقت تھا۔ میں اور میرے دو ہم جماعت اپنے استاد کے دفتر میں کھڑے تھے۔ اس نے آنکھ اٹھائی میری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں کہا۔ تم پاس ہونا چاہتے ہو۔ مگر میں تمہیں اے گریڈ دے سکتا ہوں۔ میں نے چونک کر اپنے استاد کی طرف دیکھا وہاں پر ہلکی سی لالچی مسکراہٹ تھی۔

میں تمہیں کچھ دوں گا تو تم میرے لیے کیا کروگے۔ میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ استاد کو آخر کیا ضرورت تھی وہ مجھ سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ مگر پھر بھی میں نے پوچھ لیا۔ سر آپ کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں تھوڑی سے بھینچی اور پھر کچھ دیر توقف کے بعد کہا۔ تم بس اس کی تھوڑی سی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ آخر تم یونیورسٹی کو بھی تو فیس دیتے ہی ہو۔

میں کافی تذبذب کا شکار تھا کہ انہیں کیا قیمت درکار تھی۔ اصل میں یہ معاملہ شروع ہوا تھا کلاس روم سے۔ جہاں پر میں اور میرا دوست خاموشی سے اپنے اسی استاد کا لیکچر سن رہے تھے کہ اچانک میرے ہم جماعت کو کیا سوجھی اس نے مجھ سے پوچھ لیا یار کتنا وقت رہ گیا ہے کلاس ختم ہونے میں۔ یہ معمولی سے بات استاد کو بہت ناگوار گزری یا شاید انہیں میرے ہم جماعت سے کوئی ناراضگی تھی کہ انہوں نے ہمیں سخت الفاظ میں ڈاٹنا شروع کردیا۔ میرے ہم جماعت کے بقول استاد کی اس سے ناراضگی کی وجہ کوئی لڑکی تھی لیکن مجھے اس بات کا زیادہ علم نہیں۔ کلاس کے آخر میں ہم استاد کے دفتر آئے۔

مجھے اور میرے ہم جماعت کو ڈر تھا کہ استاد ہمیں فیل کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمارا خیال تھا کہ ان سے معافی مانگ لی جائے۔ اور جب ہم ان کے دفتر پہنچے تو یہاں پر عجیب معاملہ درپیش تھا۔ وہ مجھ سے اے گریڈ دینے کی بات کر رہے تھے اور اس کی قیمت مانگ رہے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے میرے ہم جماعت کو بھی ڈرایا تھا کہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں کافی خطرناک قسم کے بندے تھے اور انہوں نے اپنی جوانی میں کافی لوگوں کی ٹانگیں وغیرہ بھی توڑ رکھی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کو ڈرانے کا مقصد مجھے صیح سے سمجھ نہیں آیا۔ اس کے بعد اب وہ میری طرف متوجہ تھے۔

یار تمہیں اے گریڈ لینا ہے تو تم اپنی تین ماہ کی تنخواہ مجھے دو گے۔ میں ہکا بکا سے کھڑا تھا مجھے لگا شاید وہ مذاق کر رہے ہیں مگر وہ سنجیدہ تھے۔ مجھے یقین نہیں آیا وہ ایک پی ایچ ڈی استاد تھے۔ اور اپنے شعبے کے بہترین لوگوں میں سے تھے لیکن ان کی بات ان کی قابلیت اور پیشے سے بالکل متضاد تھی وہ سادہ لفظوں میں رشوت مانگ رہے تھے۔ میں نے ان کی وہ بات ہنسی میں ٹال دی لیکن اس کے بعد بھی ایک دو دفعہ انہوں نے دبے لفظوں میں اپنا مطالبہ دہرایا۔

یہ ایک انتہائی ارزاں سا مطالبہ تھا۔ استاد کو بیرون ملک ایک یونیورسٹی میں ایک پیشکش تھی اور انہوں نے ہمارے فائنل امتحان کے بعد چلے جانا تھا۔ فائنل امتحان ہوا۔ نتیجہ سامنے آیا تو میرے سمیت 13 سٹوڈنٹس کا انہوں نے سی گریڈ لگایا تھا اس کے باوجود کے ہمارے مڈ ایگزام اور کوئز میں بالکل ٹھیک نمبر تھے مگر پھر بھی ہمیں انتہائی کم مارکس کے ساتھ پاس کیا گیا اور کچھ طالب علم جو ان کے نزدیکی شمار ہوتے تھے اور اس قرابت کی کافی ساری وجوہات تھی جو غالبا میں بیان کرکے میں اپنے استاد کی توہین نہیں کرنا چاہوں گا۔ ان چاہتے طالب علموں کو اچھے گڑید دے دیے گئے۔

سننے میں یہ بھی آیا کہ ایک دو طالب علم تو اپنا پیپر خالی چھوڑ آئے تھے مگر پھر بھی ان کے مارکس کلاس میں سب سے زیادہ تھے۔ کہانیاں کھلی تو معلوم ہوا وہ بہت سے سٹوڈنٹس سے کافی طرح کے مطالبے کررہے تھے۔ اب انہوں مطالبوں کی تفصیلات تو نہیں بیان کی جاسکتی لیکن یہ ایک واقعہ جو میرے ساتھ ہوا۔ ایسے نا جانے کتنے واقعات ہیں جو پاکستان کی یونیورسٹیوں میں روز ہوتے ہیں۔

بہت سے اچھے اساتذہ بھی میسر ہیں۔ مگر چند ایسے استاد جو صرف اپنی ذاتی غرض غایت کے حصول کے لیے طالب علموں کا استحصال کرتے ہیں۔ جن کی وجہ سے قابل، با صلاحیت اور محنتی لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اور خوشامدی، موقع پرست اور دیگر خوش کرنے والے اوصاف کے حامل طالب ان اساتذہ کی بدولت اچھے گڑید لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا نظام رائج عمل ہو جس کے نتیجے میں ایسے اساتذہ کو استحصال کرنے سے روکا جاسکے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari